جنوبی کشمیر میں صحافت کے حوالے سے ایک شرمناک واقعہ پیش آیا ہے ۔ یہ واقعہ اننت ناگ ضلعے میں مبینہ طور ایک لڑکی کی شکایت کے بعد منظر عام پر آیا ۔ اس بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایک لڑکی کو ہراساں کرکے اس کا جنسی استحصال کیا گیا ۔ پولیس کا کہنا ہے کہ کیس میں ملوث دو نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا ۔ گرفتار کئے گئے نوجوانوں میں ایک کا تعلق مقامی اخبار سے اور دوسرا اس کا قریبی دوست بتایا جاتا ہے ۔ یہ کیس اس وقت سامنے آیا جب سرینگر کے ایک ادارے میں تربیت حاصل کرنے والی طالبہ نے شکایت کی کہ اسے بے ہوش کرکے قابل اعتراض تصاویر لی گئیں ۔ ان تصاویر کا استعمال کرکے لڑکی کا جبری طور جنسی استحصال کیا گیا ۔ مقامی تھانے میں مقدمہ درج ہونے کے بعد پولیس نے کاروائی شروع کی اور کیس میں ملوث مرکزی ملزم کے علاوہ اس کے قریبی ساتھی کو گرفتار کیا ۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ پولیس نے فوری کاروائی کرکے ایک اخبار میں کام کرنے والے نوجوان کو گرفتار کیا ۔ اس طرح کے واقعات کے حوالے سے پولیس عموماََ تساہل سے کام لیتی ہے ۔ لیکن اس کیس کو ترجیحی بنیادوں پر آگے بڑھایاگیا اور فوری کاروائی کرکے مظلوم لڑکی کو راحت پہنچائی گئی ۔
کسی صحافی کے ہاتھوں جنسی استحصال کا یہ کوئی پہلا واقع نہیں ہے ۔ اس سے پہلے ملکی سطح پر Me 2 کے عنوان سے ایک مہم چلائی گئی ۔ اس مہم سے معلوم ہوا کہ ملکی اور عالمی شہرت کے حامل کئی صحافی ان کے دفتر میں کام کرنے والی لڑکیوں کا جنسی استحصال کرتے رہے ہیں ۔ اسی طرح ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشنوں کے اندر بے راہ روی کے بہت سے واقعات سنے گئے ہیں ۔ ایسے اداروں کے اندر جنسی طور ہراساں کرنے والے واقعات مسلسل پیش آتے رہے ہیں ۔ معروف صحافی خشونت سنگھ نے اپنے علاوہ بہت سے دوسرے ساتھی صحافیوں کی اس کمزوری کا اعتراف کیا ۔ سرینگر میں اس سے قبل جنسی استحصال کے جو بڑے بڑے اسکنڈل سامنے آئے ان میں مبینہ طور کئی صحافیوں کو ملوث پایا گیا ۔ بعد میں سیاسی حکمرانوں نے سمجھوتہ کرکے ایسے کیس زمین برد کردئے ۔ ورنہ یہ ایسے کیس تھے جو ثابت ہوچکے تھے اور لڑکیوں نے ثبوتوں کے انبار لگائے تھے ۔ لیکن کوئی کاروائی نہ ہوئی اور پورا دفتر ہی لپیٹ دیا گیا ۔ جب سے سوشل میڈیا پورے سماج پر چھاگیا ایسے واقعات میں مزید اضافہ ہونے لگا ۔ فیس بک ، ٹویٹر اور دوسرے ایسے اکاونٹوں کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ لڑکیوں کو جنسی طور مائل کرکے ان کا استحصال کیا جاتا ہے ۔ سوشل میڈیا کی وساطت سے صحافی بنے کئی نوجوانوں کے حوالے سے ایسی حرکات کا تذکر کیا جاتا ہے ۔ پچھلے کچھ عرصے سے اس حوالے سے کئی بار بات کی گئی ۔ بتایا گیا کہ سوشل میڈیا پر خودساختہ صحافی مختلف ایسی حرکات کرتے ہیں جو صحافتی برادری کے لئے شرمندگی کا باعث بن رہی ہیں ۔ بلاک آفیسروں ، ڈاکٹروں اور انجینئروں جیسے بڑے بڑے انتظامی اہلکاروں کو ڈرا دھمکاکر ان سے کافی مال حاصل کیا گیا ۔ انتظامیہ میں کام کرنے والے اعلیٰ عہدیداروں کی ہمیشہ سے یہ کمزوری رہی ہے کہ وہ اپنے معمولی اقدام اور حرکت کو بھی تشہیر دینا قابل فخر سمجھتے ہیں ۔ کسی پل کی مرمت کریں یا کوئی گوجر سرپنج ان کے سر پر پگڑی باندھے تو یہ اس کو اپنا بڑا کمال دکھا کر پیش کرنا چاہتے ہیں ۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے ایسے دو کوڑی کے صحافیوں کو اپنے ارد گرد جمع کررکھا ہے جو سوشل میڈیا پر ان کی سرگرمیوں کی خوب تشہیر کرتے ہیں ۔ ان سرگرمیوں سے سرکار یا عوام کوکوئی فائدہ ملتا ہے کہ نہیں انہیں اس سے کوئی غرض نہیں ۔ البتہ ان کی اپنی ذات کی تشہیر ہوتی ہے ۔ ایسے آفیسروں کا خیال ہے کہ تشہیری مہم چلاکر وہ سرکار کی نظر میں چہیتے بن جاتے ہیں ۔ قیمتی عہدے حاصل کرتے اور اپنا قد بھی اونچا کرتے ہیں ۔ یہ زمانے کا ٹرینڈ کہلاتا ہے ۔ آج وہی سرکاری آفیسر قابل مانا جاتا ہے جو سوشل میڈیا پر موجود رہے اور فیس بک پر ایکٹیو رہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر ایسے آفیسر نے گلی میں پھرنے والے کتوں کی طرح اپنے ارد گرد سوشل میڈیا پر کہلائے جانے والے صحافیوں کی پلٹن جمع رکھی ہے جو صبح شام ان کی سرگرمیاں دکھاتے رہتے ہیں ۔ بعد میں ان میں سے کوئی نوجوان چوری ، ڈکیتی یا ڈرگ اسمگلنگ میں ملوث پایا جائے تو اسے جعلی اور خود ساختہ صحافی قرار دیا جاتا ہے ۔ ایسا ہر گز نہیں ۔ یہ انتظامیہ کی نظر میں سینئر صحافی کہلائے جاتے ہیں ۔ انہیں میٹنگوں اور گرام سبھائوں میں باضابطہ مدعو کیا جاتا ہے ۔ وہاں ان کے لئے طعام وقیام کا انتظام کیا جاتا ہے ۔ بلکہ سج دھج کر انہیں انٹریو بھی دئے جاتے ہیں ۔ ان کے سامنے انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیدار بچھے جاتے ہیں ۔ اس سے پہلے اسی طرح کا ایک واقع جنوبی کشمیر میں پیش آیا جہاں ایک صحافی نے غریب گھرانوں کے نام پر کئی کروڑ روپیہ ہڑپ کئے تھے ۔ اسے بھی فرضی اور خودساختہ صحافی قرار دیا گیا ۔ جنوبی کشمیر میں ایسے نام نہاد صحافی برسات کے کیڑوں کی طرح ابھر آئے ہیں ۔ بدقسمتی سے انتظامیہ کے اعلیٰ عہدوں پر ایسے لوگ براجمان ہیں جو بھکاریوں کی طرح پلے بڑھے ہیں ۔ ان کی اس سے زیادہ کوئی شناخت نہیں تھی کہ نمبرداروں کے گھر ہکے تمباکو کا انتظام کرتے اور اپنے اہل وعیال کو ان کے بچے کھچے ٹکڑوں پر پالتے تھے ۔ ان کے جوتوں کو درست کرنا یہ اپنے لئے بڑا اعزاز سمجھتے تھے ۔ آج یہی لوگ ریزرویش کی وجہ سے اعلیٰ عہدوں تک پہنچ گئے تو انہوں نے اپنے ارد گرد اپنے مزاج کے ہی لوگ جمع کررکھے ہیں ۔ اس سے ان کا احساس کم تری کم ہوتا ہے ۔ انہوں نے اپنی تشہیر کے لئے جن بدذاتوں اور کمینوں کو تشہیری مہم پر لگایا ہے ان کے ہاتھوں جنسی استحصال کے واقعات کا پیش آنا کوئی انہونی بات نہیں ۔ جب تک زمام کار ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے ان کے مزاج کے عین مطابق کمینگی کے واقعات کا پیش آنا یقینی ہے ۔
