عوام کو بہتر انتظامیہ فراہم کرنے کے حوالے سے پلوامہ ضلع پورے جموں کشمیر میں سرفہرست بتایا جا رہاہے ۔ یہ ضلع پچھلے سال وادی کشمیر کے تمام اضلاع میں پہلے نمبر پر تھا ۔ اس سے حوصلہ پاکر امسال اسے پورے جموں کشمیر میں پہلے نمبر پر رکھا گیا ہے ۔ جائزہ ایجنسی نے مختلف امور کے حوالے سے نمبرات دیتے ہوئے ضلع پلوامہ کو قریب قریب سو فیصد نمبرات الاٹ کئے ہیں ۔ پلوامہ کے بعد کولگام کو دوسرے نمبر پر رکھا گیا جبکہ رام بن کو سب سے نیچے دکھایا گیا ہے ۔ یہ بڑی حوصلہ افزا بات ہے کہ انتظامی امور کا جائزہ لینے کے لئے مختلف اضلاع کی زمرہ بندی کی جارہی ہے ۔ اس سے ضلعی انتظامیہ کے درمیان مسابقاتی دوڑ لگ جانے کا اندازہ ہے اور اس دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے دوران عوام کو بہتر انتظامی سہولیات فراہم ہونے کا امکان ہے ۔ یہ قدرتی بات ہے کہ مقابلے کی اس دوڑ میں ہر کوئی ضلعی سربراہ اپنے لئے اچھے نمبرات کی خواہش کرے گا ۔ یہ جب ہی ممکن ہے کہ عوام انتظامیہ کی کارکردگی سے مطمئن ہو ۔ اس کے علاوہ زمینی سطح پر کارکردگی دکھانا لازمی ہوگا ۔ ایسا نہیں ہے کہ محض باتوں اور تقریروں سے اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کیا جاسکتا ہے ۔ بلکہ اس کے لئے عملی کام کرنا ضروری ہے ۔ سڑکوں کی تعمیر ، بجلی کی فراہمی ، پینے کے پانی کا اطمینان بخش نظام اور انفرا اسٹرکچر کھڑا کرنا ضروری ہے ۔ جب ہی کسی ضلعی سربراہ اور ضلعی انتظامیہ کو طمغوں سے نوازا جاسکتا ہے ۔ ایسا نہ ہوتو محض فائلوں کو ادھر ادھر کرنے سے کسی کے کام کو اطمینان بخش نہیں مانا جاسکتا ہے ۔
پلوامہ ضلع پچھلے تیس سالوں کے دوران بہت ہی شورش زدہ ضلع رہاہے ۔ اس دوران یہاں بڑی افرا تفری رہی اور باقی علاقوں کے مقابلے میں اس ضلع کے اندر حالات بہت ہی ابتر رہے ۔ پچھلے تین سالوں سے یہاں سیکورٹی ایجنسیوں نے سخت دبائو بنا کررکھا ہے ۔ ملی ٹنسی کو صفر سطح تک لایا گیا ۔ سیاسی سرگرمیاں بالکل ٹھپ ہوکر رہ گئی ہیں ۔ انتظامی مشنری کی خواہش کے بغیر کوئی پتا بھی ہل نہیں پاتا ۔ اس طرح کے ماحول کے اندر سرکاری حکام کے علاوہ ملازموں پر شکنجہ کس لیا گیا ہے ۔ ایسا لگتا ہے ک ضلعے پر مارشل لا لگاہوا ہے ۔ اس دوران ایل جی نے دو بار ضلعے کا دورہ کرکے درجنوں سرکاری پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھا ۔ گوجر طبقے کے طلبہ کے لئے ہوسٹل اور ساٹھ سیٹوں پر مشتمل سینما گھر کا افتتاح بھی کیا گیا ۔ اس موقعے پر ہزاروں کی تعداد میں سرکاری اساتذ ہ اور دوسرے ملازموں کو جمع کرکے ان پرجیکٹوں کو عوام کے نام وقف کیا گیا ۔ اس کے علاوہ کہا جاتا ہے کہ سیاحت کو فروغ دینے کے لئے پہلی بار کئی پروجیکٹ ہاتھ میں لئے جارہے ہیں ۔ اس طرح کی منصوب بندی کی وجہ سے ہی بتایا جاتا ہے کہ ضلع پلوامہ پوری یونین ٹیریٹری میں پہلے نمبر پر رہا ۔ تاہم کئی حلقے اس حوالے سے خدشات کا اظہار کررہے ہیں ۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ عوام کو صحت ، تعلیم اور نقل وحمل جیسی سہولیات فراہم کرنے کے حوالے سے کوئی ایسی پیش رفت نہیں دکھائی دیتی ہے جس پر سرکار فخر کرنے لگے ۔ ایک مخصوص طبقے کے سوا عام شہریوں کو انتظامی حلقوں تک سرے سے کوئی رسائی حاصل نہیں ہے ۔ یہ حلقے الزام لگارہے ہیں کہ درجنوں ایسے پروجیکٹ اب بھی نظر آتے ہیں جن پر پچھلے دس سالوں سے کام جاری ہے ۔ لیکن آج تک مکمل نہیں کیا جاسکا ۔ ایگریکلچر سیکٹر پوری طرح سے زوال کا شکار ہے ۔ ہارٹیکلچر کو کسی طور بھی ترقی نہیں دی جاسکی ۔ ریشم کی صنعت جو ایک زمانے میں یہاں آمدنی کا خاص ذریعہ تھا آج تک زوال کی شکار ہیں ۔ شہد کے حوالے سے سخت مایوسی پائی جاتی ہے ۔ کچھ دہائیاں پہلے شہد کی صنعت سے ہر گھر اور ہر فرد منسلک تھا ۔ اب یہ چند گھرانوں تک ہی محدود ہے ۔ نوجوان بے روزگاری کا شکار ہیں ۔ انہیں روزگار کے وسائل فراہم کرنے پر سرے سے کوئی توجہ نہیں دی گئی ۔ تعلیم کے لحاظ سے ضلع پلوامہ پچھلے تین دہائیوں سے برا ترقی یافتہ ہے ۔ موجودہ انتظامیہ کا بڑا عطیہ یہ ہے کہ ڈراپ آوٹ ریٹ کے علاوہ آوٹ آف اسکول افراد کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے ۔ اسی طرح منشیات کے کاروبار اور استعمال میں بتدریج اضافہ ہورہاہے ۔ انتظامیہ اس صورتحال پر قابو پانے میں بری طرح سے ناکام رہی ہے ۔ سیول سوسائٹی اس بات پر حیران ہے کہ کئی سال پہلے تعمیر کی گئی درجنوں سرکاری عمارات کو متعلقہ محکموں نے اپنی تحویل میں نہیں لیا ہے ۔ انتظامی سروے کرتے وقت ان حقایق کو نظر انداز کیا گیا ۔ اونتی پورہ اور ترال میں منی سیکریٹریٹ اب تک پائے تکمیل کو نہیں پہنچے ۔ان چیزوں کا جائزہ نہیں لیا گیا ۔ سروے کو متوازن بنانے کے لئے ان باتوں کا خیال رکھنا ضروری تھا ۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا ۔ عوامی نمائندوں سے ان کی رائے نہیں لی گئی یا ان کی آرا کو وزن نہیں دیا گیا ۔
