سرینگر سے جموں تک عوامی اور سیاسی حلقوں نے شوپیان میں کشمیری پنڈت کی ہلاکت پر احتجاج کیا۔ ہلاکت کا یہ واقع بانہ گنڈ شوپیان میں سنیچر کو پیش آیا ۔ نامعلوم بندوق برداروں نے ایک کشمیری پنڈت کو گولیوں کو نشانہ بنایا جس کو زخمی ہلاکت میں ہسپتال پہنچا یا گیا ۔ ہسپتال پہنچتے ہی اس نے دم توڑ دیا جس سے پورے علاقے میں صف ماتم بچھ گیا ۔ اس ہلاکت کو لے کر تمام فرقوں سے وابسطہ لوگوں نے غم اور افسوس کا اظہار کیا ۔ لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا نے ہلاکت کے اس واقعے کو ملی ٹنٹوں کی بزدلانہ حرکت قرار دیا ۔ مرکزی رہنمائوں نے اس ہلاکت کو ملی ٹنٹوں کے لئے لاحاصل بتاتے ہوئے اس میں ملوث عناصر کو سخت سے سخت سزا دینے کا وعدہ کیا ۔ این سی ، پی ڈی پی اور دوسرے تمام سیاسی حلقوں نے اس ہلاکت کو کشمیری کلچر پر وار قرار دیتے ہوئے اس کی شدیدمزمت کی ۔ عوامی حلقوں میں اسے ایک غیر پسندیدہ حرکت سمجھا جاتا ہے ۔
شوپیان میں ہوئی ہلاکت اس نوعیت کا پہلا واقع نہیں ہے ۔ بلکہ یہ سلسلہ پچھلے کئی مہینوں سے جاری ہے ۔ ٹارگٹ کلنگ کے ایسے واقعات میں اب تک درجنوں افراد مارے گئے ۔ ہر ایسے واقعے کی مزمت کی گئی ۔ عوامی حلقوں نے اس پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ۔ سماجی حلقوں نے احتجاج کیا ۔ سیاسی لیڈروں نے روایتی بیانات جاری کئے ۔ تاہم ان بیانات سے پہلے کوئی فرق پڑا نہ اب کوئی فرق آنے کی امید ہے ۔ روایتی بیانات ایسے موقعوں پر کوئی اہمیت نہیں رکھتے ہیں ۔ اس بات سے انکار نہیں کہ سیکورٹی فورسز کی طرف سے ایسی ہلاکتوں میں ملوث عناصر کے خلاف سخت کاروائیاں کی گئیں اور ایسے ہر قاتل کو اپنے انجام تک پہنچادیا ۔ تاہم یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ ان ہلاکتوں سے سماجی اقدار اور بھائی چارے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ۔ کشمیری پنڈتوں کی ایک بڑی تعداد پہلے ہی کشمیر چھوڑ کر چلی گئی ۔ بچے کھچے ایسے لوگ بھی یہاں سے جانے کی سوچ رہے ہیں ۔ اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ کشمیری پنڈت اب خود کو یہاں محفوظ خیال نہیں کرتے ہیں ۔ سرکار کی اس حوالے سے پالیسی غیر حقیقت پسندانہ ہے ۔ سرکار کلی طور سیکورٹی فورسز پر بھروسہ کرکے لوگوں کو محفوظ قرار دینے کی کوشش کررہی ہے ۔ صحیح ہے کہ ملی ٹنسی کا مقابلہ کرنے میں سیکورٹی فورسز کا رول سب سے اہم ہوتا ہے ۔ تاہم عام شہریوں کے بچائو کے لئے دوسرے اقدامات کرنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔ خاص طور سے ایسے ماحول کو بڑھاوا دینا لازمی ہے جس کے اندر تمام شہری خود کو فٹ ہوتے محسوس کریں ۔ ابھی کچھ دن پہلے گاندھی جینتی کے موقعے پر کشمیر میں امن اور بھائی چارے کی امید کی کرن کا ذکر کیا گیا ۔ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں اور آج پھر یہ بات دہرارہے ہیں کہ کشمیر وادی میں بھائی چارے کا ماحول بنانے میں دوسرے رہنمائوں کے بجائے مرحوم شیخ محمد عبداللہ کا کلیدی رول رہاہے ۔ مرحوم نے ایک ایسے موقعے پر ہندو مسلم سکھ اتحاد کا نعرہ دیا جب پورے برصغیر میں خون کی ہولی کھیلی جارہی تھی ۔ عوام نے شیخ صاحب کے اس نعرے کی حمایت کرتے ہوئے اقلیتی فرقے کو تحفظ فراہم کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کشمیر آج تک کسی فرقہ واریت کی حمایت نہ کرسکا ۔ یہ شیخ صاحب کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ یہاں آج تک تمام فرقوں کے درمیان امن و اتحاد پایا جاتا ہے ۔ بدقسمتی یہ ہوئی کہ شیخ صاحب سمیت تمام ایسے لیڈروں کے آدرشوں کو فراموش کیا گیا اور لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کیا گیا ۔ اگرچہ اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ یہاں آج بھی عوام ایک دوسرے کے تحفظ کو ضروری خیال کرتے ہیں اور ہندو مسلم بنیادوں پر ہلاکتوں کی حمایت نہیں کرتے ۔ اس کے باوجود ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ بنیادی سبب یہی ہے کہ عوام کو یکجا کرنے کے بجائے انہیں منقسم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔ یہاں جو سیاسی فضا پائی جاتی ہے اس کے اندر کوئی بھی شخص خود کو محفوظ خیال نہیں کرتا ۔ ایسے میں دوسرے کو تحفظ فراہم کرنا ممکن نہیں ۔ عوام کے اندر اعتماد بحال کرنے کی سخت ضرورت ہے ۔ یہ جب ہی ممکن ہے کہ تمام حلقوں کو اعتماد میں لیا جائے ۔ شوپیان میں ہلاکت کا جو واقع پیش آیا وہ سخت مایوس کن واقع ہے ۔ جو شخص نوے کی دہائی سے یہاں زندگی گزارتا تھا ۔ ایک گم نام گوشے میں اپنے ایام گزاررہاتھا ۔ اس کے بارے میں پتہ چلا ہے کہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ نزدیکی تعلق رکھنے کے علاوہ ان کے ساتھ جابجا ہمدردی بھی رکھتا تھا ۔ ان کی حاجت روائی میں آگے آگے رہتا تھا ۔ ایک چھوٹی سے بستی میں زندگی گزارنے کے بجائے اس نے اپنے وسیع اثرات چھوڑے تھے ۔ ان کی ہلاکت پر بڑے پیمانے پر افسوس کا اظہار کیا گیا ۔ علاقے کا ہر شخص اس ہلاکت کو ذاتی نقصان سمجھتا ہے ۔ پسماندگان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا جارہاہے ۔
