ابھی موسم میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی ہے ۔ تاہم بجلی کے نظام میں سخت کھلبلی پائی جاتی ہے ۔ نہ صرف دیہی علاقوں میں بلکہ شہر کے ان علاقوں میں جہاں سمارٹ میٹر نصب کئے گئے بجلی کی آنکھ مچولی جاری ہے ۔ یہ میٹر نصب کرتے وقت اعلان کیا گیا تھا کہ ان علاقوں میں بلا خلل بجلی فراہم کی جائے گی ۔ لیکن موجودہ صورتحال یہ ہے کہ شہر و گام بجلی کے حوالے سے لوگ سخت تنگ آچکے ہیں ۔ بغیر کسی شیڈول کے بجلی کی کٹوتی کی جاتی ہے ۔ بلکہ بیشتر علاقوں کے لوگ سخت مایوس ہوگئے ہیں ۔ ان علاقوں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ابھی سرما کا باضابطہ آغاز نہیں ہوا ہے ۔ موسم ابھی خشک ہے اور بجلی سپلائی بحال رکھنے میں کوئی خاص دقت نہیں پائی جاتی ہے ۔ اس کے باوجود صارفین کو بجلی ان کی توقع کے مظابق نہیں حاصل ہورہی ہے ۔ اس پر لوگ سخت مایوس نظر آتے ہیں ۔
حکومت پچھلے کئی ہفتوں سے زور دے کر کہہ رہی ہے کہ سرما کے دوران بلا خلل بجلی فراہم کی جائے گی ۔ پچھلے ہفتے بجلی فیس میں اضافے کا اعلان کیا گیا ۔ بجلی فیس میں اضافے کے اس اعلان کے ساتھ ہی بجلی کے نظام میں افرا تفری شروع ہوگئی ۔ اس وجہ سے لوگ سخت حیران ہیں کہ ایک طرف بجلی فیس میں اضافہ کیا گیا دوسری طرف بجلی کی فراہمی میں خلل شروع ہوگیا ۔ یہ بڑا متضاد مسئلہ نظر آرہاہے ۔ ممکن ہے کہ اس کی کوئی وجہ ہو ۔ لیکن عوام ایسے وجوہات سے بے خبر ہے اور ایسی صورتحال کو بلا وجہ قرار دے رہی ہے ۔ سردی کے ایام میں بجلی کی ضرورت بڑھ جاتی ہے ۔ اس وجہ سے واقعی کھپت میں اضافہ ہوتا ہے ۔ اتنی سپلائی نہیں ہوتی ہے ۔ سپلائی اور کھپت میں فرق کی وجہ سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اس مسئلہ سے نمٹنے کے لئے کٹوتی کا شیڈول تیار کیا جاتا ہے ۔ یہ سلسلہ پچھلے ساٹھ ستھر سال سے جاری ہے ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ محکمہ بجلی از خود شیڈول تیار کرتا ہے ۔ اس کی تشہیر کی جاتی ہے ۔ لیکن ایک دن بھی اس پر عمل نہیں کیا جاتا ہے ۔ اس معاملے میں صارفین کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا ہے ۔ پھر جب شیڈول ناکام ہوجاتا ہے اور محکمہ اس پر عمل کرنے میں ناکام رہتا ہے تو قصور وار صارفین کو ہی مانا جاتا ہے ۔ استحصال کی اس پالیسی کی وجہ سے لوگ ہمیشہ محکمہ بجلی سے مایوس نظر آتے ہیں ۔ لوگوں کی نظروں میں اس کے واحد ذمہ دار محکمے کے ملازمین ہیں ۔ قصور تلاش کرنے سے ماورا واقعاتی صورتحال یہ ہے کہ لوگوں کو اس حوالے سے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ وادی میں یہ ایک سنگین مسئلہ مانا جاات ہے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہاں بجلی تیار کرنے کے لئے سب سے زیادہ وسائل پائے جاتے ہیں ۔ بلکہ کئی ایسے پروجیکٹ پہلے ہی کام کررہے ہیں جن سے بڑی مقدار میں بجلی حاصل کی جارہی ہے ۔ اس بجلی کا منصفانہ طریقے سے استعمال کیا جائے تو بجلی کی قلت پر بہت حد تک قابو پایا جاسکتا ہے ۔ لوگوں کا ماننا ہے کہ مقامی سیاست دانوں خاص کر اقتدار میں رہے لیڈروں نے اس حوالے سے کبھی بھی عوام دوست پالیسی اختیار نہیں کی ۔ بلکہ اپنے مفادات حاصل کرنے کے لئے بجلی کے حوالے سے ہمیشہ کوتاہی اختیار کی گئی ۔ ان سیاست دانوں نے پچھلے تیس سالوں کے دوران ہوئے انتخابات میں بجلی کی منصفانہ فراہمی کو الیکشن ایشو بنایا ۔ لیکن الیکشن جیتنے کے بعد کبھی بھی اس مسئلے کو حل کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہو رہاہے ۔ موجودہ سرکار نے پچھلے کچھ سالوں کے دوران بجلی کے لئے بڑے پیمانے پر انفرا اسٹرکچر کھڑا کیا ۔ پرانے اور بوسیدہ کھمبے تبدیل کرکے نئے پول نصب کئے گئے ۔ اس کے علاوہ ٹکڑے ٹکڑے تاروں کو بدل کر بہتر تاریں فراہم کی گئیں ۔ اسی طرح گرڈ اسٹیشنوں اور رسیونگ اسٹیشنوں کی کمی کو بہت حد تک دور کیا گیا ۔ ایسا دیکھ کر توقع کی جارہی تھی کہ بجلی کی فراہمی کا نظام بھی بہتر ہوگا ۔ لیکن ایسا ابھی ممکن نہیں ہورہاہے ۔ اس حوالے سے بہتری کے بجائے پہلے سے زیادہ خرابی دیکھنے کو مل رہی ہے ۔ آدھ گھنٹے کے لئے بلا خلل بجلی نہیں مل رہی ہے ۔ بجلی کی آوا جاہی برابر پہلی ڈگر پر قائم ہے ۔ حکومت اپنے وعدوں پر عمل کرنے سے قاصر ہے ۔ لوگ اس وجہ سے تنائو کا شکار ہیں کہ ابھی سرما کا آغاز بھی نہیں ہوا کہ بجلی کا پورا نظام درہم برہم نظر آرہا ہے ۔ جب برف باری ہوگی تو حالت کس قدر خراب ہوگی ۔ اس طرح کا اندازہ لگاتے ہی رونگٹھے کھڑا ہوجاتے ہیں ۔ ادھر صورتحال یہ ہے کہ زندگی کی تما م آسائشیں اور سہولیات کا دارو مدار بجلی پر ہے ۔ یہ صرف گھروں کو روشن کرنے کے لئے ہی درکار نہیں بلکہ سار کام بجلی سے ہی لیا جاتا ہے ۔ کھانا پکانے ، کپڑے دھونے یہاں تک کہ گرم پانی کی فراہمی بجلی کے بغیر ممکن نہیں ۔ اب تو حمام تک بجلی پر چلائے جاتے ہیں ۔ یہ جدیدیت کا شاخسانہ ہے کہ ہماری پوری زندگی بجلی کی مرہون منت ہے ۔ یہ حقیقت جاننے کے بعد ضرورت اس بات کی ہے کہ بجلی کی فراہمی میں بہتری لائی جائے ۔
