گائیوں میںپھیلی حالیہ وبائی بیماری سے کسان سخت متاثر ہورہے ہیں ۔ راجستھان سے شروع ہوئی Lumpy Skin Disease نے کچھ ہی ہفتوں کے اندر پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک لاکھ سے زیادہ گائیں اس بیماری کی وجہ سے موت کا شکار ہوئیں ۔ اس وجہ سے پورے ملک میں واویلا مچ گیا ۔ پچھلے کچھ عرصے سے کشمیر میں بھی چمڑے کی اس بیماری نے قہر بپا کیا ہے ۔ کشمیر ملک میں دودھ پیدا کرنے والا ممتاز علاقہ ہے ۔ یہاں ایک تخمینے کے مطابق روزانہ 8 لاکھ لیٹر کے قریب دودھ کی پیداوار ہوتی ہے ۔ بیماری کی وجہ سے دودھ کی اس پیداوار میں نمایاں کمی پائی جارہی ہے ۔ اس دوران کسان شکایت کررہے ہیں کہ سرکار اس مسئلے سے نمٹنے کی طرف کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے ۔ بڑے پیمانے پر گھریلو جانوروں کی موت سے کسان سخت متاثر بتائے جارہے ہیں ۔ حکومت نے انہیں اس پریشانی سے نجات دلانے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی ہے ۔ وزیراعظم کی طرف سے یقین دلایا گیا کہ ویکسین فراہم کرنے کے علاوہ کسانوں کو دوسری سہولیات فراہم کی جائیں گی ۔ لیکن مقامی انتظامیہ کی طرف سے تاحال اس حوالے سے کوئی حوصلہ افزا بیان سامنے نہیں آیا ۔ کئی حلقے مطالبہ کررہے کہ جو کسان اس وجہ سے متاثر ہوئے ہیں انہیں فوری امداد فراہم کرنا ضروری ہے ۔ بصورت دیگر ان کی زندگی اجیرن بن سکتی ہے ۔
گھروں میں گائے پالنے کا رواج آہستہ آہستہ کم ہورہاہے ۔اب یہ کام غریب گھروں تک محدود ہوکر رہ گیا ہے ۔ اس حوالے سے یہ بات بڑی اہم ہے کہ ایسے غریب کسانوں کے لئے معمولی نقصان برداشت کرنا ممکن نہیں ہے ۔ ان گھروں کے لئے دودھ سے ملنے والی آمدنی گھر چلانے کا واحد ذریع ہے ۔ آمدنی کا یہ ذریع بند ہوجائے تو گھر چلانا ممکن نہیں رہے گا ۔ حکومت کی نظریں ڈائری فارم کے مالکان تک محدود ہے ۔ان فارموں کے مالکان نے پہلے ہی سرکار کی طرف سے بہت سی مراعات حاصل کی ہیں ۔ ان کے فارموں میں پائی جانے والی گائیں انشورنس کے دائرے میں بھی آتی ہیں ۔ اس کے علاوہ انہیں طبی سہولیات بھی میسر ہیں ۔ بلکہ معلوم ہوا ہے کہ ایسے لوگوں نے پہلے ہی مرحلے پر ویکسین حاصل کئے ہیں ۔ اس کے بجائے عام کسان اب بھی بے بس بتائے جاتے ہیں ۔ بتایا جاتا ہے کہ اب تک پچاس ہزار سے زیادہ کسان اس وجہ سے متاثر ہوئے ہیں جن میں زیادہ تر غریب لوگ شامل ہیں ۔ ایسے کسانوں کے لئے دوبارہ گائے خریدنا یا کوئی متبادل تلاش کرنا ممکن نہیں ہے ۔ ان کی واحد امید سرکاری امداد ہے ۔ سرکار نے اب تک اس حوالے سے کوئی سروے بھی نہیں کیا ہے ۔ محکمہ پشو پالن نے بھی کوئی پیش رفت نہیں دکھائی ۔ ایک طرف صورتحال یہ ہے کہ کسان سخت تنائو کا شکار ہیں ۔ دوسری طرف سرکاری عملہ خاص کر ویٹرنری ڈپارٹمنٹ کسی طرح کی ہمدردی نہیں دکھا رہاہے ۔ بلکہ بیشتر جگہوں پر وہی وطیرہ اختیار کیا جارہاہے جو کارونا وائرس پھیلنے کے ابتدائی دنوں میں طبی حلقوں نے اپنایا تھا ۔ یہ طریقہ صحیح نہیں ہے ۔ متعلقہ محکمے کو پہلی بار اس طرح کی صورتحال کا سامنا ہے ۔ اس سے پہلے یہ لوگ بڑے آرام سے تنخواہ اور دوسری سہولیات حاصل کررہے تھے ۔ بلکہ اس حوالے سے معلوم ہونا چاہئے کہ ویٹرنری سنٹروں سے باہر علاج کرنے کے عوض حد سے بڑھ کر فیس وصول کرنے کے عادی ہیں ۔ سرکار اس حقیقت سے شاید بے خبر ہے ۔ یہاں بڑے پیمانے پر کسانوں کا استحصال کیا جاتا ہے ۔ یہ ایک بڑا کاروبار اور رشوت کا ایک وسیع مافیا ہے جس کو آج تک نظر انداز کیا گیا ۔ سرکار کو چاہئے کہ موجودہ صورتحال کے تناظر میں اس محکمے کو جوابدہ بنایا جائے ۔ ان کے کام کا جائزہ لینے کا کوئی سسٹم سرے سے موجود ہی نہیں ہے ۔ بلکہ سرکاری محکمہ ہونے کے باوجود اس کے عملے نے باضابطہ ایک نجی کاروبار کی صورت اختیار کی ہے ۔ اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ اس محکمے کو کبھی دوسروں کی نظر میں آنے نہیں دیا گیا ۔ یہ محکمہ پوری طرح سے ایک ناکام محکمہ ہے ۔ یہاں ہر طبقے کی عادت بن گئی ہے کہ بجلی ، تعلیم اور جل سکتی کے ملازمین کا احتساب کیا جاتا ہے ۔ باقی سرکاری ملازم جیسے شہزادے ہیں ۔ ان کی کوئی پوچھ گچھ نہیں کی جاتی ۔ اس طرح سے سرکاری ملازموں کو طبقوں میں بانٹنا عوام دشمن پالیسی ہے ۔ اس کو ترک کرکے تمام محکموں کے ملازموں کو جواب دہ بنانے کی ضرورت ہے ۔ فی الوقت چوپائیوں میں سکن ڈیزیز کا مسئلہ درپیش ہے ۔ ممکن ہے کہ جلد ہی اس پر قابو پایا جائے گا ۔ لیکن اس دوران جتنے بھی کسان متاثر ہوئے ان کی امداد کرنے کی سخت ضرورت ہے ۔ حکومت پہلے ہی کسی اسکیم کے تحت کسانوں کو گائے اور بھینس پالنے کے لئے فراہم کرتی ہے ۔ ایسی اسکیم کو دوبارہ شروع کرنے اور اس میں وسعت لانے کی اشدضرورت ہے ۔
