لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا کا کہنا ہے کہ جموں کشمیر میں علاحدگی پسندی اور کورپشن کا پوری طرح سے خاتمہ کیا گیا ہے ۔ اسے ایک کامیابی مانتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ موجودہ سرکار کی کوششوں سے یہاں پائی جانی والی ان برائیوں کو ختم کیا گیا ۔ اس حوالے سے بولتے ہوئے انہوں نے یہ بات زور دے کر کہی کہ چند سال پہلے یہاں اس طرح کی جو خرابیاں پائی جاتی تھیں اب وہ کہیں نظر نہیں آتی ہیں ۔ ایل جی نے ایسی خرابیاں ختم ہونے کے بعد امید دلائی کہ امن و امان قائم ہونے کے بعد کشمیر اب معاشی لحاظ سے کافی ترقی کرے گا ۔ ایل جی کی طرف سے علاحدگی پسندی کے خاتمے کے حوالے سے دیا گیا بیان پہلی بار سامنےنہیں آیا ۔ بلکہ جب سے یہاں ملی ٹنسی کا گراف کم ہوگیا خاص طور سے دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد اس طرح کے بیانات اکثر و بیشتر دئے جاتے ہیں ۔ وزیراعظم اور وزیر داخلہ کے علاوہ کئی مرکزی وزرا کی طرف سے ایسے بیانات دئے گئے ۔ علاحدگی پسندی پر بہت حد تک قابو پانے کے بیان کو جھٹلایا بھی نہیں جاسکتا ہے ۔ یہاں اب اس حوالے سے سرگرمیاں قریب قریب صفر لیول تک پہنچ گئی ہیں ۔ تاہم رشوت ستانی کے بارے میں اس طرح کا بیان فکر انگیز قرار دیا جارہاہے ۔
رشوت ستانی کے حوالے سے ملک بھر میں کئی طرح کی سرویز کی گئیں ۔ ایسی سرویز یقینی طور سو فیصد صحیح قرار نہیں دی جاسکتی ہیں ۔ اس کے باوجود یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ سروے کے مطابق جموں کشمیر کورپشن کے معاملے میں بدنام ترین علاقہ ہے ۔ بلکہ یہ نام اولین علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے ۔ پچھلے ایک مہینے کے دوران کورپشن کے جو معاملات درج ہوئے ان کو دیکھ کر یہ کسی طور کہا نہیں جاسکتا کہ کورپشن پر قابو پایا گیا ۔ چوتھے درجے کے ملازموں سے لے کر بڑے بڑے آفیسروں تک کئی لوگوں کو رشوت لیتے ہوئے دھر لیا گیا ۔ ان کے خلاف باضابطہ کیس درج کئے گئے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پچھلے ہفتے ہی سابق گورنر ستیہ پال ملک سے مرکزی تفتیش بیورو نے ایک بڑے کورپشن اسکنڈل کے حوالے سے پوچھ گچھ کی ۔ ملک کا کہنا ہے کہ اسے کشمیر میں تعیناتی کے دوران ایک فائل پر دستخط کے عوض کروڑوں روپے کی رشوت کی پیش کش کی گئی ۔ تاہم انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کیا ۔ تین سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود آج تک کوئی خاص کارروائی نہیں کی گئی ۔ ملزموں اور مجرموں کی نشاندہی کی گئی نہ اس پیسے کا کہیں اتہ پتہ ہے جو سرکار نے اس حوالے سے اپنے ملازمین سے وصول کیا ۔ تازہ ترین واقعہ ریکروٹمنٹ بورڈ کا ہے ۔ بورڈ کی طرف سے پچھلے کئی سالوں کے دوران لئے گئے تحریری امتحانات اور انٹرویو سب ایک بڑا فراڈ قرار دئے گئے ۔ حکومت نے اس کی ذیل میں کی گئی تمام تعیناتیاں منسوخ کیں ۔ لیکن بورڈ کے کسی اہلکار کو گرفتار کرنا تو دور کی بات ابھی تک نشاندہی بھی نہیں کی گئی ۔ اس سے پہلے فائر سروس اور جموں کشمیر بینک میں کی گئی تعیناتیوں کے بارے میں اسی طرح کے الزامات بھی لگائے گئے ۔ بلکہ رد کئے گئے امیدوار آج تک احتجاج کررہے ہیں اور تصدیق کررہے ہیں کہ ان تعیناتیوں میں بڑے پیمانے پر رشوت کا لین دین ہوا ۔ تمام ثبوتوں کے باوجود کوئی سننے کے لئے تیار نہیں ۔ اس حوالے سے کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی کسی کی سمجھ سے باہر ہے ۔ بعض کیسوں میں بڑی پھرتی دکھائی گئی ۔ اس کے برعکس کئی کیس نظر انداز کئے گئے ۔ اس کے بعد جب کوئی یہ کہے کہ رشوت ستانی کا خاتمہ ہوگیا ہے تو یقین کرنا مشکل نظر آتا ہے ۔ اس بات سے انکار نہیں کہ پہلے جس بڑے پیمانے پر رشوت کا لین دین ہوتا تھا بہت حد تک اس پر قابو پایا گیا ۔ اس کے باوجود اس طرح کے جراثیم آج تک موجود ہیں ۔ ان کا پوری طرح سے صفایا نہیں کیا گیا ۔ رشوت ستانی پر مکمل قابو پانا ممکن نہیں ۔ یہ بیماری جس کسی بھی ملازم یا آفیسر کو لگ جاتی ہے پھر اس سے چھٹکارا پانا مشکل ہوتا ہے ۔ پولیس کا خوف رہتا ہے نہ ایجنسیوں کا ڈر ۔ ایسے لوگ سروس کے دوران کئی بار معطل ہوجاتے ہیں ۔ ان کی لعنت ملامت بھی ہوتی ہے ۔ اس کے باوجود باز نہیں آتے ۔ بلکہ پہلے سے طاقتور بن جاتے ہیں ۔ دیکھا گیا کہ ایسے ملازموں کی رسائی اوپر تک بڑھ جاتی ہے ۔ یہ لوگ پھر اینٹی کورپشن اداروں کے اندر کام کرنے والوں کو بھی اس کام کا ماہر بناتے ہیں اور ان کے لئے اسامیاں تلاش کرتے ہیں ۔ وہاں ان کی جان پہچان بڑھ جاتی ہے تو یہ دوسرے ملزموں کی وہاں سفارش کرتے ہیں ۔ بلکہ انہیں کسی حد تک بچانے میں بھی کامیاب ہوجاتے ہیں ۔ جموں کشمیر میں رشوت جس طرح سے سرایت کرچکی ہے اس کا خاتمہ بڑا مشکل ہے ۔ تاہم اس کو کم کرنا زیادہ مشکل نہیں ۔ بدقسمتی سے یہ بیماری اب ڈاکٹروں او اساتذہ کو بھی لگ چکی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا خاتمہ بڑا مشکل دکھائی دیتا ہے ۔
رشوت ستانی کے حوالے سے ملک بھر میں کئی طرح کی سرویز کی گئیں ۔ ایسی سرویز یقینی طور سو فیصد صحیح قرار نہیں دی جاسکتی ہیں ۔ اس کے باوجود یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ سروے کے مطابق جموں کشمیر کورپشن کے معاملے میں بدنام ترین علاقہ ہے ۔ بلکہ یہ نام اولین علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے ۔ پچھلے ایک مہینے کے دوران کورپشن کے جو معاملات درج ہوئے ان کو دیکھ کر یہ کسی طور کہا نہیں جاسکتا کہ کورپشن پر قابو پایا گیا ۔ چوتھے درجے کے ملازموں سے لے کر بڑے بڑے آفیسروں تک کئی لوگوں کو رشوت لیتے ہوئے دھر لیا گیا ۔ ان کے خلاف باضابطہ کیس درج کئے گئے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پچھلے ہفتے ہی سابق گورنر ستیہ پال ملک سے مرکزی تفتیش بیورو نے ایک بڑے کورپشن اسکنڈل کے حوالے سے پوچھ گچھ کی ۔ ملک کا کہنا ہے کہ اسے کشمیر میں تعیناتی کے دوران ایک فائل پر دستخط کے عوض کروڑوں روپے کی رشوت کی پیش کش کی گئی ۔ تاہم انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کیا ۔ تین سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود آج تک کوئی خاص کارروائی نہیں کی گئی ۔ ملزموں اور مجرموں کی نشاندہی کی گئی نہ اس پیسے کا کہیں اتہ پتہ ہے جو سرکار نے اس حوالے سے اپنے ملازمین سے وصول کیا ۔ تازہ ترین واقعہ ریکروٹمنٹ بورڈ کا ہے ۔ بورڈ کی طرف سے پچھلے کئی سالوں کے دوران لئے گئے تحریری امتحانات اور انٹرویو سب ایک بڑا فراڈ قرار دئے گئے ۔ حکومت نے اس کی ذیل میں کی گئی تمام تعیناتیاں منسوخ کیں ۔ لیکن بورڈ کے کسی اہلکار کو گرفتار کرنا تو دور کی بات ابھی تک نشاندہی بھی نہیں کی گئی ۔ اس سے پہلے فائر سروس اور جموں کشمیر بینک میں کی گئی تعیناتیوں کے بارے میں اسی طرح کے الزامات بھی لگائے گئے ۔ بلکہ رد کئے گئے امیدوار آج تک احتجاج کررہے ہیں اور تصدیق کررہے ہیں کہ ان تعیناتیوں میں بڑے پیمانے پر رشوت کا لین دین ہوا ۔ تمام ثبوتوں کے باوجود کوئی سننے کے لئے تیار نہیں ۔ اس حوالے سے کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی کسی کی سمجھ سے باہر ہے ۔ بعض کیسوں میں بڑی پھرتی دکھائی گئی ۔ اس کے برعکس کئی کیس نظر انداز کئے گئے ۔ اس کے بعد جب کوئی یہ کہے کہ رشوت ستانی کا خاتمہ ہوگیا ہے تو یقین کرنا مشکل نظر آتا ہے ۔ اس بات سے انکار نہیں کہ پہلے جس بڑے پیمانے پر رشوت کا لین دین ہوتا تھا بہت حد تک اس پر قابو پایا گیا ۔ اس کے باوجود اس طرح کے جراثیم آج تک موجود ہیں ۔ ان کا پوری طرح سے صفایا نہیں کیا گیا ۔ رشوت ستانی پر مکمل قابو پانا ممکن نہیں ۔ یہ بیماری جس کسی بھی ملازم یا آفیسر کو لگ جاتی ہے پھر اس سے چھٹکارا پانا مشکل ہوتا ہے ۔ پولیس کا خوف رہتا ہے نہ ایجنسیوں کا ڈر ۔ ایسے لوگ سروس کے دوران کئی بار معطل ہوجاتے ہیں ۔ ان کی لعنت ملامت بھی ہوتی ہے ۔ اس کے باوجود باز نہیں آتے ۔ بلکہ پہلے سے طاقتور بن جاتے ہیں ۔ دیکھا گیا کہ ایسے ملازموں کی رسائی اوپر تک بڑھ جاتی ہے ۔ یہ لوگ پھر اینٹی کورپشن اداروں کے اندر کام کرنے والوں کو بھی اس کام کا ماہر بناتے ہیں اور ان کے لئے اسامیاں تلاش کرتے ہیں ۔ وہاں ان کی جان پہچان بڑھ جاتی ہے تو یہ دوسرے ملزموں کی وہاں سفارش کرتے ہیں ۔ بلکہ انہیں کسی حد تک بچانے میں بھی کامیاب ہوجاتے ہیں ۔ جموں کشمیر میں رشوت جس طرح سے سرایت کرچکی ہے اس کا خاتمہ بڑا مشکل ہے ۔ تاہم اس کو کم کرنا زیادہ مشکل نہیں ۔ بدقسمتی سے یہ بیماری اب ڈاکٹروں او اساتذہ کو بھی لگ چکی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا خاتمہ بڑا مشکل دکھائی دیتا ہے ۔
