بچوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والے قومی کمیشن نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ پچھلے کچھ سالوں کے دوران بچوں اور خواتین کے ساتھ زیادتیوں کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے ۔ اس حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ پچھلے پانچ سالوں کے دوران بچوں کے ساتھ زیادتیوں کے اکاون ہزار سے زیادہ واقعات پیش آئے ہیں ۔ قومی کمیشن نے صرف ایسے واقعات کا جائزہ پیش کیا ہے جو کسی طرح سے منظر عام پر آئے ہیں ۔ ی واقعات پولیس کے پاس درج ہوئے ہیں یا میڈیا نے کسی طرح سے ان کا ذکر کیا ہے ۔ ایسے بیشتر واقعات اندر ہی اندر خاموشی سے دفن کئے جاتے ہیں ۔ اس کے باوجود ایسے سینکڑوں اور ہزاروں کیس سامنے آئے جہاں کم سن بچوں اور خواتین کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے ۔ یہ بڑی شرمندگی کی بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں اب بھی اس طرح کے گھناونے واقعات پیش آتے ہیں ۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ ایسے اکثر واقعات میں مجرموں کو سزا نہیں دی جاتی ہے ۔ کورٹ میں اس طرح کے کیس کئی کئی سال تک چلائے جاتے ہیں ۔ تاریخ پر تاریخ دی جاتی ہے ۔ یہاں تک کہ مقدمہ درج کرنے والا ہی تھک جاتا ہے ۔ مجرم چاہتا ہے کہ ایسے کیس چلتے رہیں اور فیصلے کی نوبت نہ آئے ۔ عدالت جان بوجھ کر مجرموں کی خواہش کا پاس ولحاظ نہیں کرتی ۔ بلکہ یہاں کا عدالتی نظام ہی ایسا ہے کہ کیس لمبے عرصے تک چلے رہتے ہیں ۔ جیب کترے کو سزا دینے میں ایک دہائی سے کم کا عرصہ نہیں لگتا ۔ کسی دکاندار کی بددیانتی کے خلاف عدالت میں کوئی ادارہ چلان پیش کرے تو فوری سزا دینے کے بجائے کیس کو انجام تک پہنچنے میں کئی سال لگ جاتے ہیں ۔ یہاں تک کہ کسی سرکاری ملازم کو رنگے ہاتھوں رشوت لیتے پکڑا جائے تو اس کو بھی سزا کے انتظار میں کئی دہائیان کٹ جاتی ہیں ۔ خواتین یا بچوں کے ساتھ زیادتیوں کے معاملات نہ صرف سنگین خیال کئے جاتے ہیں ۔ بلکہ ایسے معاملات حساس بھی مانے جاتے ہیں ۔ ان کی شنوائی بڑی نازک بینی سے کی جاتی ہے ۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کیس کا فیصلہ ہونے میں کئی کئی سال صرف ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے بیشتر کیس کہیں درج ہی نہیں ہوتے ہیں ۔ اس کے باوجود پچھلے پانچ سالوں کے دوران ملک میں 50,857 ایسے کیس درج ہوئے ہیں ۔اس سے ہماری معاشرتی بدحالی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔
بچوں اور عورتوں کے ساتھ زیادتی کے کیس کسی ایک علاقے تک محدود نہیں ۔ بلکہ ہر علاقے میں اس طرح کی وارداتیں پیش آرہی ہیں ۔ دہلی سے مدھیہ پردیش اور اڈیسہ سے گوا تک ہر جگہ اس طرح کے واقعات سامنے آتے ہیں ۔ سب سے زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ ایسے بہت سے کیس گھروں میں پیش آتے ہیں جہاں والد کے ہاتھوں بیٹی اور چچا کے ذریعے اس کا بھتیجا زیادتی کا شکار ہوا ہے ۔ ایسے جرائم کے لئے قانون سازی کی گئی ہے ۔ قانون کے تحت مجرموں کے لئے سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں ۔ لیکن بہت کم مجرموں کو سزا دی جاتی ہے ۔ طوالت کی وجہ سے جرم ثابت کرنا بڑا مسئلہ بن جاتا ہے ۔ بیشتر معاملات میں پولیس مکر جاتی ہے ۔ بلکہ کیس درج کرنے والے بھی سمجھوتہ کرتے ہیں ۔ حد تو یہ ہے کہ کچھ لوگ ایسے معاملات نقدی وصول کرکے سلجھاتے ہیں ۔ پھر نہ بیٹے اور ناہی بیٹی کا خیال رہتا ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ ایسے معاملات عزت نفس اور بیٹی کا مستقبل محفوظ بنانے کے خیال سے بھی پوشید ہ رکھے جاتے ہیں ۔ تاہم اکثر سزا نہ دینے یا سزا میں وقت ضایع ہونے کے خوف سے درج ہی نہیں ہوتے ۔ ان باتوں کی وجہ سے ہی کئی حلقے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان جرائم کے حوالے سے نئی قانون سازی کی جانی چاہئے ۔ ایسے حلقے چاہتے ہیں کہ اس طرح کے حساس معاملات کے لئے ٹائم فریم مقرر ہونا چاہئے ۔ عدالت کے لئے ضروری قرار دیا جائے کہ ایسے کیس دو چار مہینوں کے اندر ہی حل کئے جائیں اور مجرموں کے لئے سخت سے سخت سزا کا تعین کیا جائے ۔ کچھ حلقے چاہتے ہیں کہ اس طرح کے کیسوں میں ملوث افراد کے لئے سزا ئے موت دی جانی چاہئے ۔ پھانسی کا مطالبہ کرنے والے ایسے لوگوں کا خیال ہے کہ جب تک مجرموں کو پھانسی نہ دی جائے ا س طرح کے کیس سامنے آتے رہیں گے ۔ ان کا کہنا ہے کہ دو چار مجرموں کو سرعام پھانسی دی جائے تو آئندہ کوئی ایسا فعل بد انجام دینے کا سوچے گا بھی نہیں ۔ جب بھی اس طرح کا کوئی معاملہ پیش آتا ہے تو بہت سے لوگ پھانسی اور سزائے موت کا مطالبہ لے کر سامنے آتے ہیں ۔ یہاں مسئلہ یہ درپیش ہے کہ جدید دنیا میں موت کی سزا کو پسند نہیں کیا جاتا ۔ بہت سے انسانی حقوق کے علمبردار ادارے موت کی سزا سرے سے ہی منسوخ کرنے کے حق میں ہیں ۔ اس کے باوجود عام شہری چاہتے ہیں کہ زیادتیوں کے معاملات میں سخت سے سخت سزا دی جانی چاہئے ۔ جب ہی معاشرے کو ان واقعات سے پاک کیا جاسکتا ہے ۔
