بیک ٹو ولیج کا چوتھا مرحلہ اختتام کو پہنچا ۔ وزیٹنگ آفیسر ز کی طرف سے تیار کئے گئے کتابچے کو مربوط کرنا باقی ہے ۔ اس کے بعد اس حوالے سے مکمل اعداد و شمار سامنے آئیں گے ۔ اب تک معلوم ہوا ہے کہ منصوبے کے مطابق پروگرام بہت ہی کامیاب رہا ۔ مرکز سے کئی وزرا نے پروگرام میں شرکت کی ۔ کئی سیکریٹری لیول کے آفیسروں نے گائوں گائوں جاکر وہاں پروگرام میں شریک لوگوں سے مسائل سنے اور حل کرنے کی یقین دہانی کی ۔ یہاں تک کہ لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا نے کئی دودراز پہاڑی علاقوں میں جاکر وہاں لوگوں کے ساتھ وقت گزارا ۔ سرکار کا کہنا ہے کہ پروگرام توقع سے زیادہ کامیاب رہا ۔ لوگوں نے بڑے پیمانے پر شرکت کرکے سرکاری منصوبہ بندی کے ساتھ بے انتہا دلچسپی کا مظاہرہ کیا ۔ اگرچہ کئی علاقوں سے لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ان کے مطالبوں پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ۔ ان کا کہنا ہے کہ سرکاری آفیسر اور ملازم محض ڈیوٹی کا ایک یا دو دن گزارنے گائوں آئے تھے ۔ مختلف سرکاری اداروں کا معائنہ کیا ۔ ایسا لگا کہ یہ لوگ سیر سپاٹے کے لئے آئے تھے ۔ خانہ پری کرکے واپس چلے گئے ۔ کوئی ٹھوس کام نہیں ہوا ۔ سرکار کا کہنا ہے کہ پروگرام کے اصل نتائج بہت جلد سامنے آئیں گے اور پروگرام کے دوران سامنے آئے مطالبات کا بغور جائزہ لیا جائے گا ۔ ضلعی سطح پر ان مطالبات کی روشنی میں منصوبہ سازی ہوگی اور حکومت عوام کی منشا پر پورا اترنے کی کوشش کرے گی ۔
بہت سے منفرد سرکاری پروگراموں کی طرح بیک ٹو ولیج حکومت کا ایک حساس پروگرام ہے ۔ اپنی مخصوص نوعیت کے حوالے سے پروگرام کو عوام دوست خاص کر دیہی عوام کے لئے ایک خوش آئند پروگرام قرار دیان کوئی مبالغہ نہیں ہے ۔ پروگرام کو صحیح اسپرٹ کے مطابق چلایا جائے تو یقینی طور یہ گائوں میں رہنے والے عوام کے لئے فائدہ مند پروگرام ہوگا ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ سرکاری اہلکارایسے پروگراموں کے حوالے سے سیریس نہیں ہوتے ۔ یہاں کے سرکاری اہلکار خاص کر اعلیٰ درجے کے آفیسر جس خول میں رہتے ہیں وہاں سے نکلنا پسند نہیں کرتے ۔ شاید ہی کوئی سرکاری آفیسر سیکریٹریٹ سے نکل کر خوشی خوشی گائوں گیا ہوگا ۔ کسی بھی ایسے آفیسر کا من نہیں چاہتا ہے کہ اپنے ائر کنڈیشن دفتر سے نکل کر ایسے گائوں جائے جہاں بہت کم سہولیات میسر نہیں ۔ حالانکہ پروگرام کے دوران گائوں میں ان آفیسروں کی بڑی آئو بھگت کی گئی ۔ ان کے آرام کا خاص خیال رکھا گیا ۔ ان کے قیام اور طعام کا اعلیٰ سطحی انتاظم کیا گیا ۔ اس کے باوجود کوئی آفیسر پروگرام کے دوران لوگوں کے ساتھ خوش دلی سے پیش آتے نہیں دیکھا گیا ۔ آفیسر ایسے پروگراموں میں شریک ہونا اپنے منصب اور ذاتی انا سے متصادم خیال کرتے ہیں ۔ اپنے یار دوستوں سے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے اس دن اور ایسے پروگراموں کو کوستے رہتے ہیں ۔ اس کے بعد پروگرام میں ان کی شرکت سے کون سے فائدے حاصل ہونگے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے ۔ یہ حقایق سامنے آنے کے باوجود یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ حکومت نے دوردراز کے دیہاتوں میں رہنے والوں کو اپنے مطالبات پیش کرنے کا موقع دیا ۔ اس وجہ سے ان کی حوصلہ افزائی ہوئی ۔ بیک ٹو ولیج کا یہ چوتھا مرحلہ ہے جو اختتام پذیر ہوا ۔ اس سے پہلے اس نوعیت کے تین پروگرام انجام دئے گئے ہیں ۔ بدقسمتی سے پہلے تین پروگرام کسی وجہ سے نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے ۔ تیسرے مرحلے کا پروگرام کووڈ 19 کی نظر ہوا ۔ یہ پروگرام کووڈ کے سایے میں ہوا تھا ۔ بعد میں اس پروگرام کے دوران سامنے آئے خیالات کو عملی جامہ نہیں پہنچایا گیا ۔ اس وجہ سے لوگ سخت مایوس ہوئے ۔ اس کا اثر تازہ پروگرام پر پڑا ۔ لوگ زیادہ توقعات لے کر نہیں آئے ۔ مخصوص طبقوں نے ان پروگراموں میں ضرور شرکت کی ۔ لیکن یہ وعدہ نہیں کرسکے نہ انہیں ایسا کرنے کی اجازت ہے کہ وہ لوگوں کو ان کے مطالبات کے حوالے سے کوئی یقین دہانی کریں ۔ ان کا کام محض عوامی مطالبات سننا ہوتا ہے ۔ باقی کام ضلعی حکام کی دسترس میں ہوتا ہے ۔ اس حوالے سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ضلعی حکام کو منصوبہ بناتے ہوئے اپنے مفادات مدنظر ہوتے ہیں ۔ ان کی اپنی ضروریات ہوتی ہیں اور نہیں چاہتے ہیں کہ ذاتی نقطہ نظر کو ترک کرکے عوامی مطالبات مدنظر رکھے جائیں ۔ یہاں یہی دیکھا گیا ہے کہ ضلعی سطح پر بننے والا منصوبہ مخصوص طبقوں کو خوش کرنے اور انہیں سہولیات بہم پہنچانے کے لئے ہوتا ہے ۔ اس میں لین دین کا واضح اثر ہوتا ہے ۔ ایسے منصوبے زیادہ تر ٹھیکہ داروں کو اعتماد میں لے کر بنائے جاتے ہیں ۔ معلوم ہوا ہے کہ بعض علاقوں میں عوامی نمائندوں کے مطالبات کلی طور نظر انداز کئے جاتے ہیں ۔ بیک ٹو ولیج ظاہری خد وخال کے اعتبار سے ایک احسن پروگرام ہے ۔ لیکن اس کو اصل تناظر میں چلانا اور کامیاب بنانا یہاں بہت ہی مشکل مانا جاتا ہے ۔ تاہم امید کی جاتی ہے کہ اس بار پروگرام عوامی خواہشات پر پورا اترنے میں کامیاب ہوگا ۔
