موافق موسم میسر آنے کی وجہ سے اس سال زعفران کی بمپر کاشت ہوئی ہے ۔ کسانوں نے اس پر خوشی کا اظہار کیا ہے ۔ امید کی جاتی ہے کہ زعفران کی مارکیٹ میں مانگ بڑھ جائے گی اور کسانوں کو خاطر خواہ آمدنی حاصل ہوگی ۔ سرکار کا کہنا ہے کہ عالمی بازار تک زعفران کی رسائی ممکن بنائی گئی ہے ۔ اس حوالے سے جی آئی سرٹفکیٹ کا ذکر کیا جارہاہے ۔ اس طرح کی سرٹفکیٹ کی بدولت کہا جاتا ہے کہ زعفران کی ملاوٹ اور نقلی زعفران کے خدشات دور کئے گئے ہیں ۔ پچھلے کئی سالوں کے دوران زعفران کی مارکیٹ میں مانگ بہت کم ہوگئی تھی اور بھائو بھی گرگیا تھا ۔ اس کی وجہ زعفران میں ملاوٹ اور اصلی زعفران کے بجائے نقلی زعفران فروخت کرنا بتایا جاتا ہے ۔ زعفران سے متعلق تاجروں کو بڑے پیمانے پر خسارہ اٹھانا پڑا ۔ خاص طور سے بین الاقوامی بازار میں اس کی ڈیمانڈ پر کافی اثر پڑا تھا ۔ زعفران سے وابستہ کاشت کار سخت پریشان تھے اور دبائو بڑا رہے تھے کہ انہیں اپنی زمین دوسرے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی اجازت دی جائے ۔ اس دوران پہلے ریاستی سرکار اور بعد میں یوٹی انتظامیہ نے زعفران کی کاشت بڑھانے اور اسے مارکیٹ تک رسائی دینے کے لئے کئی اقدامات اٹھائے ۔ کاشتکاروں کی مالی امداد کی گئی اور زوال سے دوچار زعفران انڈسٹری کو دوبارہ پٹری پر لایا گیا ۔ سرکار کی یہ پالیسی بہت حد تک کامیاب رہی ۔ اگرچہ کسانوں کا کہنا ہے کہ زعفران کی کاشت کے لئے پابند بنائی گئی زمین کو انڈسٹری ایریا بنایا جائے تو بے حد منافع ملے گا ۔ تاہم حکومت اس پر آمادہ نہیں اور زعفران کی کاشت کو بہتر بنانے کے لئے ہر طرح کی مدد کرنے کو تیار ہے ۔ سرکار کی اس پالیسی کو سراہا جاتا ہے ۔ تاہم اس دوران انتظامیہ کی طرف سے ایپل انڈسٹری کے ساتھ دکھائی جارہی سرد مہری کو کو معنی خیز قرار دیا جارہاہے ۔
زعفران کے باجئے سیب کی کاشت بڑے پیمانے پر ہوتی ہے ۔ اب دیہی علاقوں کے قریب قریب تمام کسان سیب کی صنعت سے منسلک ہیں ۔ اس صنعت پر بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری ہوتی ہے ۔ دو تین دہائیاں پہلے جو اراضی بے کار یا چاول کی کاشت کے لئے مخصوص تھی آج اس پر سیبوں کے باغ لگے نظر آتے ہیں ۔ اس وجہ سے تجارتی سرگرمیوں میں کافی اضافہ ہوا اور ماحول کو انسان دوست بنانے میں بھی مدد ملی ۔ خیال تھا کہ سرکار زعفران انڈسٹری کی طرح سیب کی صنعت کو سہارا دینے میں دلچسپی سے کام لے گی ۔ لیکن مبینہ طور ایسا ہوتا نظر نہیں آرہاہے ۔ بلکہ شکایت کی جارہی ہے کہ کئی حلقے سیب صنعت کے خلاف پالیسی اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ رواں موسم کے دوران الزام لگایا گیا کہ بلا وجہ قومی شاہ راہ کو بند کرکے سیب سی بھری گاڑیوں کو مناسب وقت پر ملک کے مختلف بازاروں میں پہنچنے سے روک دیا گیا ۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ایک بڑی سازش تھی جس میں شاہراہ پر تعینات کئی اعلیٰ سرکار اہلکار ملوث تھے ۔ انتظامیہ نے شکایت ملنے پر ایسے ایک آفیسر کو تھوڑی بہت سرزنش ضرور کی ۔ لیکن کوئی سخت قدم اٹھانے سے احتراز کیا گیا ۔ الزام لگانے والے حلقے آج تک احتجاج کررہے ہیں کہ سیب صنعت کو جان بوجھ کر تباہ کیا جارہا ہے ۔ اس الزام میں کہاں تک صداقت ہے اس سے قطع نظر یہ بات بڑی مایوس کن ہے کہ سرکار اس حوالے سے سیریس دکھائی نہیں دیتی ہے ۔ جس طرح سے سرکار نے ریشم یا زعفران کی صنعت سے دلچسپی دکھائی سیب کی صنعت کو اسی قدر نظر انداز کیا جارہاہے ۔ پچھلے سال عندیہ دیا گیا تھا کہ سیب کی کچھ اقسام کو عالمی منڈی تک رسائی دی جارہی ہے ۔ کئی خلیجی ممالک کو سیب برآمد کرنے کی پالیسی کا اعلان کیا گیا تھا ۔ اس حوالے سے ٹرانسپورٹ سہولیات میسر رکھنے کا وعدہ کیا گیا تھا ۔ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ کشمیری سیب کو بین الاقوامی بازار تک رسائی مل جائے تو اس کو بہت پسند کیا جائے گا ۔ کسان اس طرح کے اقدامات از خود نہیں اٹھاسکتے ہیں ۔ بلکہ اس کے لئے سرکار خاص طور سے مرکزی سرکار کی مدد کی ضرورت ہوگی ۔ لیکن یہاں خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ کچھ دوسرے ممالک سے سیب درآمد کرکے کشمیری سیب صنعت کو تباہ و برباد کیا گیا ۔ رواں سال کے دوران زعفران کی طرح سیب کی پیداوار میں بھی بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا تھا ۔ مال کا بڑا حصہ ابھی تک کسانوں کے پاس جمع پڑا ہے ۔ انہیں خریدار مل رہاہے نہ مارکیٹ تک رسائی آسان بنائی جارہی ہے ۔ سرکار کی زعفران کے حوالے سے پالیسی کو جتنا خوش آئند قرار دیا جاتا ہے اسی قدر سیب صنعت سے عدم توجہی پر مایوسی کا اظہار کیا جاتا ہے ۔ کسانوں کے حوالے سے سرکار بار بار کہتی ہے کہ ان کی آمدنی میں دوگنا اضافے کو ممکن بنایا جائے گا ۔ ادھر صورتحال یہ ہے کہ سیب کے کاشتکار اصل زر سے بھی ہاتھ دھورہے ہیں ۔ ایسے کسان سخت خسارے کا شکار ہیں ۔ آمدنی میں دو گنا اضافہ تو دور کی بات اس پر خرچ کی گئی رقم بھی واپس نہیں مل رہی ہے ۔ سرکار کو اس حوالے سے پالیسی بنانے کی ضرورت ہے ۔
