اپنی پارٹی کے بانی سربراہ اور سابق وزیر الطاف بخاری نے سرینگر میں عوامی جلسہ کرکے سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا ۔ 2019کے بعد سرینگر میںیہ اپنی نوعیت کا پہلاعوامی جلسہ بتایا جاتا ہے ۔ اس جلسے میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی ۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ پارٹی لیڈر اس سے زیادہ کی توقع کرتے تھے ۔ اس کے باوجود جلسہ ایک کامیاب جلسہ بتایا جاتا ہے ۔ بیشتر لوگ دور دراز علاقوں سے آکر جلسے میں شریک ہوئے ۔ بخاری کا یہ جلسہ ان لوگوں کے لئے ایک وارننگ ہے جو انہیں نظر انداز کرکے کوئی سیاسی اہمیت دینے کو تیار نہیں ہیں ۔ ایسے سیاسی حلقوں کا خیال تھا کہ اپنی پارٹی محض ان چند افراد کا خیمہ ہے جو پی ڈی پی اور دوسرے حلقوں سے الگ ہوکر یہاں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے ۔ ان کا کہنا تھا کہ پارٹی کے ساتھ عوام کا کوئی بڑا طبقہ وابستہ نہیں اور سیاسی میدان میں پارٹی کوئی اہمیت نہیں رکھتی ہے ۔ سرینگر میں جلسہ کرکے بخاری نے نہ صرف اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا بلکہ پارٹی کی حیثیت منوانے میں بھی کامیاب ہوئے ۔ ان کے اس جلسے سے اندازہ لگایا جارہاہے کہ جموں کشمیر کا آئندہ سیاسی نقشہ اس سے بالکل مختلف ہوگا جس کا اندازہ لگایا جارہاہے ۔ اس وجہ سے کئی لوگ سخت حیران ہیں کہ روایتی سیاسی جماعتوں کے بجائے عوام نئے سیاسی حلقوں میں آنا زیادہ پسند کرتے ہیں ۔ پہلے ایسا بہت کم ہوتا تھا کہ کسی بھگوڑے سیاست دان کو عوام حمایت دینے کو تیار ہوتے ۔ لیکن اب حالات میں کافی تبدیلی آگئی ہے اور نئے سیاسی حلقے آنے والے حالات میں ایک اہم پوزیشن حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ بلکہ یہ لوگ ان کوششوں میں کامیاب بھی ہورہے ہیں ۔
الطاف بخاری نے جن حالات میں پی ڈی پی سے الگ ہوکر نئی پارٹی تشکیل دی وہ بڑے گومگو کے حالات تھے ۔ یہ اندازہ لگانا بڑا مشکل تھا کہ حالات کون سا کروٹ لے کر قرار پائیں گے ۔ مرکزی سرکار نے دفعہ 370 منسوخ کرکے جموں کشمیر کے سیاسی حلقوں کے خلاف وسیع کریک ڈاون شروع کیا تھا ۔ حالات کو پوری طرح سے قابو میں کرنے کے لئے علاحدگی پسندوں سے زیادہ مین اسٹریم جماعتوں کے لیڈروں کو گرفت میں لے کر قید کیا گیا ۔ اس مرحلے پر الطاف بخاری خود کو بچانے میں کامیاب رہے ۔ بعد میں حالات میں قدرے ٹھہرائو آگیا تو بخاری نے پی ڈی پی سے بغاوت کا علم بلند کرکے ایک نئی سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کیا ۔ اس کے ساتھ درجنوں ایسے سیاسی لیڈر جو پرانی سرکاروں میں بطور وزیر کام کرچکے تھے ان کے ساتھ ملتے دیکھے گئے ۔ روایتی سیاسی حلقوں نے نئی جتھہ بندی کو بی جے پی کا بی ٹیم قرار دیا اور اس پر دہلی کا آلہ کار ہونے کا الزام لگایا گیا ۔ اس پس منظر میں بہت کم لوگ یقین کرتے تھے کہ بخاری کسی طور عوام کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہونگے ۔ لیکن ان کے اندازے غلط ثابت ہوئے اور سرینگر کے جلسے نے ایسی تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا ۔ یوں ایک نئی سیاسی لام بندی دیکھنے کو ملی ۔ یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ سرینگر کے جلسے میں دیکھے گئے لوگ پارٹی کا کل سرمایہ ہیں ۔ یہی ان کی کل حیثیت ہے ۔ کچھ کم نہ کچھ زیادہ ۔ تاہم یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ جتنے لوگ سرینگر کے جلسے میں موجود دیکھے گئے وہ یقینی طور پارٹی کے ساتھ کھڑا رہیں گے ۔ یہ وقتی ابال ہے یا سوچ سمجھ کر پارٹی میں شامل ہوگئے ہیں ۔ اس بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ پچھلے تیس سالوں کے دوران یہاں کے عوام نے جو قلا بازیاں دکھائیں وہ بہر صورت مد نظر رکھنا ہونگی ۔ اب عوام ایک ہی ڈگر پر چلنے کے بجائے وقت کے ساتھ ساتھ اپنا حلیہ بھی تبدیل کرتے رہتے ہیں ۔ بخشی مرحوم کے کہنے کے مطابق یہاں ہر سیاسی لیڈر کے ساتھ پچاس لاکھ ہیں ۔ جو کوئی بھی سرینگر میں جلسہ کرتا ہے بڑی تعداد میں لوگوں یہاں اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے ۔ اب پتہ نہیں لوگ اصل میں کس کے ساتھ ہیں ۔ ہر لیڈر پر امید ہے کہ آنے والے حالات پر اسی کا کنٹرول ہوگا ۔ حالانکہ ابھی سیاست خاص کر الیکشن کی کوئی بساط نہیں بچھائی گئی ہے ۔ ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا ہے کہ بہت جلد ایسی سرگرمیوں کا آغاز ہونے والا ہے ۔ پھر بھی لیڈر اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ وقت سے پہلے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا اکثر نقصان دہ ثابت ہوتا ہے ۔ وجہ کچھ بھی ہو بخاری نے اپنی طاقت کا بھر پور مظاہرہ کیا ۔ بلکہ انہوں نے اپنا الیکشن ایجنڈا بھی سامنے لایا ہے ۔ عوامی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ کشمیر کا مستقبل دہلی سے جڑا ہے ۔اس میں کسی طرح کا ابہام نہیں رکھا گیا ۔ بلکہ واضح کیا گیا کہ اس کے برعکس سوچنے سے کوئی فائدہ ملنے والا نہیں ۔ انہوں نے علاحدگی پسند ی سے اعلان برات کرتے ہوئے لوگوں کے مارے جانے پر افسوس کا اظہار کیا اور اسے ایک لاحاصل عمل قرار دیا ۔ اسی طرح انہوں نے الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کی صورت میں عوام کو دی جانی والی سہولیات کا اعلان بھی کیا ۔
