ہر سال کی طرح اس سال بھی 26 نومبر کو سم ودھان دیوس منایا گیا ۔ اس موقعے پر تمام سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں اہلکاروں نے آئین کے تحفظ اور اس کے ساتھ وفاداری کا حلف اٹھایا ۔ وزیراعظم نے بذات خود ملک کی عدالت عالیہ میں اس حوالے سے منعقدہ تقریب میں شرکت کی ۔ یہ دن انگریزوں کے راج سے آزادی حاصل کرنے کے بعد اپنے تیار کردہ آئین کی یاد میں منایا جاتا ہے ۔ اس سے پہلے صرف یوم جمہوریت کے موقعے پر ملک کے آئین اور اس کے معماروں کی یاد میں تقریبات کا انعقاد کیا جاتا تھا ۔ لیکن 2005 میں سرکار نے یوم آئین منانے کا اعلان کیا ۔ جب سے لے کر آج تک اس دن کے موقعے پر تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے ۔ اس طرح سے یہ دن قومی تہوار کے طور منایا جاتا ہے ۔
آئین ہند ملک کی ایک باوقار دستاویز ہے ۔ اپنے نقاط کے لحاظ سے یہ عوام کے مفاد اور ملک کی سالمیت کے لئے ایک اہم دستاویز سمجھی جاتی ہے ۔ آئین تیار کرنے والوں نے بڑی ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس آئین کو تیار کیا ہے ۔ دنیا کے مختلف ممالک کے آئین ہا کا مطالعہ کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان کا آئین اپنی شناخت کے اعتبار سے تمام ایسی دوسری دستاویزات کے مقابلے میں قدر کا مقام رکھتا ہے ۔ یہ آئین کسی مخصوص گروہ یا جماعت کے مفاد کے لئے تیار نہیں کیا گیا ہے ۔ بلکہ اس کی بنیادیں بڑی مضبوط اور ہمہ گیر نوعیت کی ہیں ۔ ہندوستان میں جتنی بھی قومیں آباد ہیں بلکہ مختلف قوموں ، نسلوں یہاں تک کہ مذاہب کے پیروکاروں کے مفادات اور ضروریات کو مدنظر رکھ کر اس آئین کو تیار کیا گیا ہے ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اسی آئین کے مندرجات کا فائدہ اٹھاکر جو لوگ اقتدار میں آتے ہیں وہی اس آئین سے وفا کرنے میں لیت و لیل سے کام لیتے ہیں ۔ بہت سے لوگ جنہوں نے اپنے وقت پر اسمبلیوں یہاں تک کہ پارلیمنٹ میں پہنچ کر اس آئین کی وفاداری کا حلف اٹھایا وہی لوگ آئین سے بے وفائی کے نتیجے میں جیل کاٹ رہے ہیں یا مقدمات لڑرہے ہیں ۔ اس وجہ سے آئین میں لوگوں کو ملنے والی ضمانتوں کا فائدہ عام لوگوں تک نہیں پہنچا ۔ اس وجہ سے عوام شکایت کررہے ہیں کہ سیاسی لیڈر آئین کے ساتھ دھوکہ دہی کا شکار ہورہے ہیں ۔ آئین میں ملک کے تمام بالغ شہریوں کو ووٹ کا حق دیا گیا ہے ۔ اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ ملک پر یہاں کے عوام کا راج قائم ہے ۔ یہ ایسی حکومت ہے جو لوگوں کے ہاتھوں بن جاتی ہے اور لوگوں کی حکومت کہلاتی ہے ۔ لیکن یہی لوگ اس کے فوائد سے محروم ہورہے ہیں ۔ حکمران جماعت کی طرف سے بار بار کانگریسی لیڈروں پر الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے رشوت ستانی سے کام لیا ۔ حالانکہ ان تمام لیڈروں نے کسی بھی عہدے کا چارج لینے سے پہلے آئین کا حلف اٹھایا تھا ۔ اس کے باوجود انہیں آئین کی خلاف ورزی کا مرتکب ٹھہرایا جاتا ہے ۔ اس کے جواب میں کانگریس کی طرف سے حکمران جماعت پر تنقید کی جارہی ہے کہ اس کے ہاتھوں آئین کی بے حرمتی ہورہی ہے ۔ کانگریس کے حالیہ منتخب سربراہ نے یوم آئین کے موقعے پر الزام لگایا کہ آئین بحران سے دوچار ہے ۔ بات کہاں تک صحیح ہے اور الزام کس کا درست یا غلط ہے ۔ اس پر بحث کرنا مقصود نہیں ۔ تاہم یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی ہے کہ انگریزوں کے چلے جانے اور عوامی حکومت بن جانے کے بعد بھی ملک کے عوام کو کوئی خاص فرق نہیں پڑا ۔ انہیں وہ مراعات حاصل نہیں ہورہی ہیں جن کا یہ جدوجہد آزادی کے دوران اندازہ لگارہے تھے ۔ ملک کی اقلیتوں کو شکایت ہے کہ آئین میں ان کے لئے حقوق کا تعین کرنے کے باوجود انہیں پورے حقوق نہیں دئے جارہے ہیں ۔ یہ آج کی شکایت نہیں بلکہ پچھلے ستھر سالوں سے اس صورتحال کا بار بار اظہار کیا جارہاہے ۔ کئی طبقے ایسے ہیں جو مسلسل الزام لگارہے ہیں کہ ان کے ساتھ انگریزوں سے بدتر سلوک کیا جاتا ہے ۔ یہ آئین کا قصور نہیں ۔ سیاست دانوں سے لاکھ شکایات کے باوجود آئین کو ایک متوازن مسودہ قرار دیا جارہاہے ۔ سیکولر ازم اور سوشلزم کے دو بنیادی نظریات کو لے کر جس طرح سے آئین تیار کیا گیا تھا اس کا مقصد یہاں بسنے والے تمام فرقوں اور طبقوں کو حقوق کی ضمانت دینا مقصود تھا ۔ لیکن مبینہ طور ایسا نہیں کیا گیا ۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ کانگریس کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے ۔ ملک پر اولین اور سب سے لمبے عرصے تک حکومت کرنے والی یہی جماعت رہی ہے ۔ لہذا شکایات بھی زیادہ اسی کے ساتھ ہیں ۔اس کے باوجود یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی ہے کہ لوگ ملک کے آئین کی عزت کرتے ہیں ۔ بااثر طبقہ اس سے روگردانی کا شکار رہاہے ۔ لیکن عام لوگ اسے ایک مقدس دستاویز مانتے ہوئے اس کی عزت کرتے ہیں ۔ یوم آئین کے موقعے پر اتنا ہی کافی نہیں کہ آئین کی یاد دہانی کی جائے ۔ بلکہ اس کے ثمرات عام لوگوں تک پہنچانے کی بھی کوشش ہونی چاہئے ۔ سب سے اہم بات لوگوں کے مال وجان اور ان کی عزت کا تحفظ ہے ۔ اس حوالے سے کوئی خامی رہی تو ذمہ دار لوگوں سے عوام کی وفاداری کی ضمانت نہیں دی جاسکتی ہے ۔
