جموں کشمیر سروسز سلیکشن بورڈ کی طرف سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق اب نائب تحصیلداروں کے لئے اردو جاننا لازمی نہیں ہوگا ۔ اس حوالے سے جاری کئے تازہ ہدایات میں کہا گیا ہے کہ بورڈ کی طرف سے آئندہ لے جانے والے ایسے امتحانات میں شامل ہونے کے لئے اردو کا جاننا ضروری نہیں ہوگا ۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے نائب تحصیلداروں کی تعیناتی کے لئے بورڈ کی طرف سے لئے جانے والے امتحانات میں وہی امیدوار شامل ہوسکتے تھے جن کا گریجویشن میں اردو بحیثیت ایک بنیادی مضمون کے رہا ہو ۔ اس کا فائدہ اردو جاننے والے طلبہ کو ملتا تھا ۔ اب انتظامیہ کی طرف سے فیصلہ لیا گیا کہ اردو کے لازمی مضمون ہونے کی ضرورت کو ختم کیا جائے ۔ اس سے پہلے اردو جموں کشمیر کی سرکاری زبان ہونے کے درجے کو ختم کیا گیا ۔ اب یہاں کوئی ایک زبان سرکاری زبان نہیں ۔ بلکہ کئی زبانوں کو سرکاری زبان ہونے کا درجہ دیا گیا ۔ اس دوران یہ بھی کہا گیا کہ نائب تحصیلدار پوسٹ پر تعیناتی کے لئے اردو کا جو التزام تھا اس کو ختم کیا جائے ۔ انتظامیہ کے اس فیصلے کے تناظر میں بورڈ کی طرف سے نوٹفکیشن جاری کیا گیا جس کے تحت اب نائب تحصیلداری کے لئے لئے جانے والے کسی بھی امتحان میں امیدوار کا اردو جاننا ضروری نہیں ہوگا ۔ اس ہدایت سے کئی حلقوں خاص کر ان لوگوں کے اندر جو اردو سے محبت رکھتے ہیں سخت تشویش پائی جاتی ہے ۔ وادی کے بہت سے ایسے طلبہ جنہوں نے اردو کو بحیثیت بنیادی مضمون کے اختیار کیا ہوا ہے بورد کی طرف سے جاری کئے گئے اس نوٹفکیشن کی وجہ سے سخت تشویش کا شکار ہیں ۔ انہوں نے اس طرح کی ہدایات پر افسوس اور مایوسی کا اظہار کیا ہے ۔
اردو بہت پہلے سے جموں کشمیر کی سرکاری زبان بنائی گئی تھی ۔ مہاراجہ کے دور میں اس کو یہاں کی سرکاری زبان ہونے کا درجہ دیا گیا تھا ۔ مہارا جہ نے ایسا بلا وجہ نہیں کیا تھا ۔ بلکہ یہ بڑی دانشمندی کے ساتھ اٹھایا گیا قدم تھا ۔ اس ذریعے سے انہوں نے اپنی انتظامیہ کو بیرونی مداخلت سے دور رکھا تھا ۔ اردو کے بجائے کوئی اور زبان سرکاری زبان بنائی گئی ہوتی تو لازمی طور انتظامی امور چلانے کے لئے بیرون ریاست سے اہلکار لانا پڑتے ۔ پنجاب اور اس طرح کے دوسرے علاقوں سے کارکنوں کو برآمد کرنے کے بجائے مہاراجہ نے اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیا ۔ ایسا کرکے انہوں نے بیرونی مداخلت وک کم سے کم درجے تک پہنچادیا ۔ اگر ایسا نہ کیا گیا ہوتا تو مہراجہ کو خدشہ تھا کہ غیرمقامی لوگوں کی مداخلت بڑھ جائے گی اور ان کا اقتتدار کمزور پڑجائے گا ۔ یہ بات یقینی تھی کہ ان کے کورٹ کے اندر مداخلت بڑھ جاتی اور ایسے سازشی عناصر جگہ پاتے جو ان کی کسی طور خیر خواہ نہیں ہوسکتے تھے ۔ ایک مخصوص تہذیب و تمدن کی حامل ریاست کے اندر پنجاب اور دہلی سے بلائے گئے افراد کو ذمہ دار عہدوں پر تعینات رکھنا انہیں پسند تھا نہ محفوظ خیال جاتا تھا ۔ آج کل بھی اسی طرح کٰ صورتحال پائی جاتی ہے ۔ کل ہی اوزیشن جماعت این سی کی طرف سے الزام لگایا گیا کہ انتظامی چلانے کے لئے اہم عہدوں پر ایسے آٖیسر تعینات کئے گئے ہیں جو یہاں کی تہذیب و تمدن سے اور نہ زمینی حالات سے باخبر ہیں ۔ ایسے لوگ عوامی مشکلات اور ان کی ضروریات سے باخبر نہیں ہوتے ۔ این سی لیڈروں کا کہنا ہے کہ دوردراز علاقوں سے لائے گئے بیرو کریٹ یہاں کے عوام کی ضروریات پورا کرنے سے قاصر ہیں ۔ اس وجہ سے لوگوں کی مشکلات میں آئے دن اضافہ ہوتا جارہاہے ۔ ایسی ہی صورتحال مہاراجہ کے زمانے میں موجود تھی ۔ ایسی انتظامیہ تشکیل دی جاتی جو یہاں کے عوام کی زبان سمجھنے سے بے بہرہ ہوتی تو عوامی بغاوت پھوٹ پڑنے کا اندیشہ تھا ۔ اس بغاوت سے بچنے کے لئے اردو کو سرکاری زبان ہونے کا درجہ دیا گیا ۔ سب سے اہم بات ہے کہ یہ واحد زبان ہے جو یہاں کے مختلف خطوں میں بغیر کسی مشکل کے بڑی آسانی سے بولی اور سمجھی جاتی ہے ۔ مختلف خطوں اور عوامی طبقوں کے درمیان رابطے کی اصل زبان اردو ہی ہے ۔ جموں کشمیر کی باقی ملک کے ساتھ رابطے کی زبان بھی اردو ہی ہے ۔ اس زبان میں یہ صفت ہے کہ ہندی ، پنجابی ، گوجری اور اس طرح کی درجنوں زبانیں بولنے والے اردو کو آسانی سے بول اور سمجھ سکتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اردو بولنے والوں کا ہندوستانی زبانیں جاننے والوں کے ساتھ آسانی سے رابطہ ہوتا ہے ۔ بدقسمتی سے کچھ عرصے سے اردو کو ایک بیرونی اور مسلمانوں کی مادری زبان ہونے کا درجہ دیا جانے لگا ہے ۔ بلکہ اس زبان کو اسلام کی بنیاد پرستی کی ترجمان زبان بنایا گیا ہے ۔ اس کے خلاف سخت نفرت پھیلائی گئی اور اسے ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ اردو کسی مخصوص طبقے کی زبان مان لیا جائے ۔ اردو کو خارج کرکے بوالی ووڈ فلموں کو سمجھنا کسی کے بس کی بات نہیں ۔ اس دوران جموں کشمیر انتظامیہ نے بھی اردو زبان کے خلاف محاذ کھڑا کیا اور اسے سرکاری زبان ہونے کی عزت سے محروم کیا گیا ۔ اس دوران زبان کو زک پہنچانے والے کئی اقدامات اٹھائے گئے ۔ تازہ قدم سروسز سلیکشن بورڈ کی طرف اٹھایا گیا ۔ اس کا براہ راست اثر اردو زبان پر پڑنا یقینی ہے ۔
