انسداد رشوت ستانی ادارے کی طرف سے چھے پٹواریوں کے خلاف عدالت میں چالان پیش کیا گیا ۔ ملوث افراد کے خلاف الزام ہے کہ انہوں نے رشوت کے عوض ریو نیو ریکارڈ میں ہیرا پھیری کی ۔ اس حوالے سے بہت پہلے کاروائی شروع کی گئی تھی ۔ تحقیقات کے دوران کئی حقایق سامنے آنے کے بعد ملوث بتائے جارہے افراد کے خلاف باضابطہ چالان داخل کیا گیا ۔ اس دوران مڈ ایریا سے اطلاع ہے کہ وہاں کے ایس ڈی ایم نے پٹواری کو معطل کرکے اس کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا ہے ۔ پٹواری پر الزام ہے کہ اس نے ایک بیوہ کے اراضی پلاٹ کے ریو نیو کاغذات تیار کرنے کے لئے ایک موٹی رقم وصول کی تھی ۔ کوئی چھے مہینے پہلے رقم وصول کرنے کے باوجود آج تک بیوہ کا مسئلہ حل نہیں کیا گیا ۔ اس پر موصول ہوئی شکایت پر کاروائی کرتے ہوئے ملزم کو معطل کیا گیا اور مزید کاروائی کا عندیہ دیا گیا ۔ ان واقعات سے معلوم ہورہاہے کہ سرکار کی کوششوں کے باوجود کئی سرکاری ملازم آج تک اپنا رویہ بدلنے کو تیار نہیں ہیں ۔ خاص طور سے ریو نیو محکمے میں کام کررہے ملازمین اب بھی لکیر کے فقیر بنے ہوئے ہیں اور برابر دھاندلیاں کررہے ہیں ۔ عمومی رائے یہی ہے کہ پٹواری اپنے دوسریا ٓفیسروں کی مدد سے ریو نیو ریکارڈ میں من مانیاں کررہے ہیں ۔ اس پر روک لگانا ممکن نہیں ہورہاہے ۔
ریو نیو ریکارڈ کو بغیر کسی معقول وجہ کے انتہائی خفیہ ریکارڈ بنادیا گیا ہے ۔ سیکورٹی دستاویزات سے زیادہ پٹواریو ںنے محکمہ مال کے ان دستاویزات کو بہت ہی confidential بنادیا ہے جو اصل میں کسانوں سے متعلق کاغذات ہیں ۔حد تو یہ ہے کہ پٹواری بڑی ڈھٹائی سے دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے بغیر کوئی دوسرا شخص ان کاغذات کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ۔ یہ ایسا جھوٹ ہے جو بڑی چالاکی سے پھیلایا گیا اور سرکار کو بھی اس کی حمایت پر آمادہ کیا گیا ۔ سرکاری حکام خاص کر ریونیو سے جڑے آفیسر بھی یہ باور کرارہے ہیں کہ پٹواریوں کے بغیر ریونیو ریکارڈ کی طرف کوئی دوسرا شہری آنکھ اٹھاکر نہیں دیکھ سکتا ہے ۔ اس کی کوئی بنیاد ہے اور نہ ٹھوس وجوہات ۔ یہی وجہ ہے کہ پٹواری اس ریکارڈ میں اپنی من مانیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ اس دوران سرکار نے جمعبندی کی ڈیجی ٹائزیشن کا کام مکمل کیا ۔ اگرچہ یہ کام ابھی کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچایا جاسکا ۔ تاہم سرکار کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے کام کا بڑا حصہ مکمل کیا گیا ۔ اس حوالے سے یہ بات بڑی عجیب ہے کہ ڈیجی ٹائزیشن کا یہ کام ریونیو اہلکاروں سے ممکن نہیں ہوسکا اور محکمہ تعلیم کے اساتذہ نے بیشتر کام انجام دیا ۔ اس کے باوجود محکمہ مال اب بھی اپنی اس خودساختہ تھیوری پر عمل کررہا ہے کہ ریونیو ریکارڈ ایسا مقدس ریکارڈ ہے جو پٹواریوں کے بغیر محفوظ نہیں ۔ ایک ہفتے میں چھے سات پٹواریوں کے خلاف رشوت ستانی کے معاملات درج ہونے کے بعداندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ محکمے کے اندرونی حالات کس قدر بگاڑ کے شکار ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ محکمہ مال میں کام کرنے والے اس طرح کے ملازموں کی اکثریت ایسے بدعنوانی کے مقدمات میں ملوث ہیں ۔ شاید ہی کوئی پٹواری ، گرداوار یا دوسرا کوئی اہلکار ایسا ہوگاجس پر بد عنوانی کے الزامات نہ لگے ہوں ۔ اس محکمے کے حوالے سے عمومی تاثر یہی ہے کہ کوئی بھی کام رشوت کے بغیر انجام نہیں پاتا ہے ۔ اب ایک آدھ درجن ملازموں کے خلاف کاروائی سے کون سا سدھار ممکن ہوسکتا ہے سمجھنا مشکل ہے ۔ کوئی ایسا لائحہ عمل تیار کرنا بے حد ضروری ہے جو اس محکمے کو از سر نو منظم کرنے کا باعث ہوگا ۔ اس محکمے کے اندر تنظیم نو کے بغیر عام شہریوں کی کوئی سیوا نہیں ہوسکتی ہے ۔ سرکار اس کام میں لگی ہوئی ہے کہ عوام کو سڑکوں ، صاف پانی ، بجلی ، رسوئی گیس اور ایسی ہی دوسری سہولیات اس کی دہلیز پر فراہم کی جائیں ۔ لیکن ایک عام شہری کی اپنی ملکیت کی اراضی اس کے ہاتھوں میں نہیں ہے ۔ اس کی حفاظت خود کرنے سے وہ قاصر ہے ۔ وہ اپنے جد و اجداد سے ملی وراثت کے کاغذات حاصل کرنے سے قاصر ہے ۔ اس کی اپنی ملکیت پر کوئی حق اور استحقاق نہیں ہے ۔ ایسی صورتحال کے اندر جب ایک چوتھے درجے کے ریونیو ملازم کو اس کی ملکیتی اراضی پر کوئی بھی فراڈ کرنے کا اختیار حاصل ہے تو ایسا شخص دوسری سہولیات کا فائدہ اٹھانا فضول خیال کرتا ہے ۔ اس طرح کی صورتحال کے اندر کسانوں کا ہی نہیں بلکہ دوسرے عام شہریوں کا جینا بھی دو بھر ہوگیا ہے ۔ اس حوالے سے کوئی بھی کاروائی حوصلہ افزا بات ہے ۔ لیکن زمینی صورتحال کو تبدیل کرنا ممکن نہیں ۔ ریو نیو ریکارڈ کو اندھیرے کمرے کے اندر رکھی مقدس کتاب سمجھنا ہر گز صحیح نہیں ۔ اس ذریعے سے ان دستاویزات کی حفاظت کی جاسکتی ہے نہ ان سے کوئی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے ۔ بلکہ یہ زیادہ سے زیادہ استحصال کا باعث بن سکتا ہے ۔ یہ سرکار کی بڑی عوامی خدمت ہوگی اگر اس طرح کے صدیوں پرانے رواج کو ختم کرکے کوئی عوام دوست پالیسی اپنائی جائے ۔ کسان پٹواریوں کے ہاتھوں بہت تنگ آچکے ہیں ۔ ان کا بڑے پیمانے پر استحصال کیا جاچکا ہے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس نظام کو بدلا جائے یا کسی حد تک سدھارا جائے ۔
