حکومت کا کہنا ہے کہ کشمیری شہد کو فروغ دینے کے لئے جی آئی ٹیگ کا استعمال کررہی ہے ۔ اس حوالے سے بیان دیتے ہوئے ایگریکلچرکے سربراہ نہ کہا کہ یہ کام بہت جلد انجام کو پائے گا ۔ اس طرح سے کشمیری شہد کی صنعت کو دوبارہ بحال کرنے اور محفوظ بنانے میں مدد ملے گی ۔ شہد کی صنعت سے وابستہ کئی تاجروں نے اس اقدام کو حوصلہ افزا قرار دیتے ہوئے اسے شہد کی صنعت کے لئے ایک بہترین قدم قرار دیا ۔ کشمیری شہد سے متعلق یہ بات واضح ہے کہ اس ملائمت اور خوشبو باقی علاقوں کی شہد سے اعلیٰ درجے کی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسے دنیا بھر میں پسند کیا جاتا ہے ۔ لیکن پچھلے کئی سالوں سے یہاں کے شہد میں ملاوٹ کرکے اس کی شفافیت کو متاثر کیا گیا ۔ اس کے علاوہ جنگلوں کی صفائی نے بھی شہد کی صنعت پر برا اثر ڈالا ۔ کشمیری جنگلوں میں کیکر ، ببول اور دوسرے کئی ایسے درخت پائے جاتے ہیں جن سے حاصل ہونے والا شہد باقی دنیا سے ممتاز بن جاتا ہے ۔ لیکن اب ایسے درخت بہت کم تعداد میں موجود ہیں ۔ شہد کی مکھیاں اب میوہ باغات سے شہد حاصل کرتی ہیں جو اس درجے کا نہیں جیسا کہ پہلے ہوا کرتا تھا ۔ اس کے باوجود کشمیری شہد اب بھی باقی دنیا کی شہد سے بہتر ہے ۔ کئی لوگوں نے جعلوی کشمیری شہد فروخت کرکے اصل شہد کی صنعت کو تباہ کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی ڈیمانڈ بہت حد تک کم ہوگئی ہے ۔ اس دوران سرکار نے شہد کی صنعت کو دوبارہ بحال کرنے کا منصوبہ بنایا ہے ۔ امید کی جارہی ہے اس سے یہ صنعت وسعت پانے اور اپنا وقار بحال کرنے میں کامیاب ہوگی ۔
کشمیری شہد کی صنعت ایک زمانے میں یہاں کے بے روزگار نوجوانوں کے لئے آمدنی کا بڑا ذریع تھا ۔ بلکہ شہد اور ریشم دیہی علاقوں میں وسیع صنعت کا درجہ رکھتی تھیں ۔ گھریلو صنعتوں کے طور آبادی کا بڑا حصہ ان پر انحصار کرتا تھا ۔ بعد میں یہ دونوں صنعتیں زوال پذیر ہوئیں ۔ ان کے لئے خام مواد حاصل کرنا مشکل بن گیا ۔ نئی نسل کے بہت کم نوجوانوں کو معلوم ہوگا کہ یہاں کے قریب قریب ہر گھر میں شہد کی مکھیوں کے چھتے موجود ہوتے تھے اور تمام لوگ شہد حاصل کرنے کے ماہر تھے ۔ پہلے شہد صرف اپنے لئے حاصل کی جاتی تھی ۔ لیکن بعد میں اس نے باضابطہ ایک صنعت اور نفع بخش کاروبار کا روپ اختیار کیا ۔ حکومت نے اس کے لئے ایپی کلچر کے نام سے ایک الگ محکمہ کیا ۔ بدقسمتی سے اس محکمے کے اہلکاروں کی سرگرمیاں محض تنخواہ حاصل کرنے تک محدود رہیں ۔ کسانوں کو شہد حاصل کرنے کے جدید طریقوں سے باخبر نہیں کیا گیا ۔ کئی طرح کی بیماریاں پھیلنے اور بڑی تعداد میں مکھیاں ہلاک ہونے کا کوئی تدارک نہیں کیا گیا ۔ اس کے علاوہ شہد کو بروقت مارکیٹ میں پنچانے کے لئے ٹریفک سہولیات فراہم نہیں کی گئیں ۔ جیسا کہ آج تک ہورہاہے کہ قومی شاہراہ کئی کئی روز تک بند رہتی ہے ۔ اس وجہ سے جہاں یہاں کی عمومی تجارت پربرا اثر پڑا وہاں شہد کی صنعت کو بھی اس نے اپنی لپیٹ میں لیا ۔ اس صنعت کے ساتھ چونکہ عام شہری اور غریب کسان وابستہ تھے ۔ کسی نے ان کی مدد نہیں کی ۔ اعلیٰ آفیسر بڑے مزے سے شہد کھاتے رہے ۔ لیکن اس کی شفافیت اور تجارت پر کسی نے توجہ دینے کی زحمت نہ کی ۔ یہاں تک کہ اس صنعت کو زوال آگیا ۔ اس میں شک نہیں کہ آج بھی درجنوں تاجر اور کسان اس سے جڑے ہیں ۔ لیکن یہ ایک محدود حلقہ ہے ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ایسے لوگ شہد جمع کرنے کے اول دن سے ہی شہد میں کھانڈ اور دوسری اشیا ملاکر مکھیوں کو خالص شہد جمع کرنے نہیں دیتے ہیں ۔ اس سے شہد کی مقدار بڑھ جاتی ہے ۔ لیکن اس کے معیار میں کافی کمی آتی ہے ۔ حکومت نے اصلی شہد کا اندازہ لگانے کے لئے کوئی لیبارٹری بھی قائم نہیں کی ۔ اس وجہ سے روایتی طریقوں سے شہد کے درجے متعین کئے جاتے ہیں ۔ شہد کو جانچنے کے ایسے روایتی طریقے کسی طور قابل بھروسہ نہیں ہے ۔ ادھر پچھلے کچھ سالوں کے دوران یہ بھی دیکھا گیا کہ غیر مقامی افراد شہد کی مکھیوں کے چھتے لاکر یہاں کے میوہ باغوں میں رکھتے ہیں ۔ اس سے میوہ کی پیداوار بڑھانے میں مدد تو ملتی ہے لیکن ساتھ میں کچھ نئی بیماریاں بھی در آئی ہیں ۔ اس کا اثر شہد خاص کر کشمیری شہد صنعت پر پڑرہا ہے ۔ ایسے بہت سے غیر قانونی اقدامات سے یہاں کی شہد صنعت آہستہ آہستہ اپنی شہرت سے محروم ہورہی ہے ۔ اس مرحلے پر حکومت نے کشمیری شہد صنعت کو برے اثرات سے بچانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اس سے پہلے اسی طرح کی پہل پشمینہ شالوں کے حوالے سے بھی کی گئی ۔ لیکن زیادہ کارآمد ثابت نہ ہوئی ۔ کشمیری زعفران کو بچانے کا بھی چرچا کیا گیا ۔ ہنوز بہتر نتائج سامنے آنا باقی ہے ۔ اب شہد صنعت کے حوالے سے ایک نئی امید دلائی جارہی ہے ۔ معلوم نہیں کہ زمینی سطح پر یہ کہاں تک بارآور ثابت ہوگی ۔ تاہم اس کے لئے اپنی فکر مندی کا اظہار بھی ایک بڑا قدم ہے ۔ اس کی سراہانہ کرنا ضروری ہے ۔
