محکمہ موسمیات کی پیش گوئی کے مطابق جمعرات کو کئی علاقوں میں جبکہ جمعہ کو پورے کشمیر میں صبح سے شام تک برف باری کا سلسلہ جاری رہا ۔ اس دوران پہلے فوج کے ایک آفیسر سمیت تین نوجوانوں اور کشتواڑ کے دو مزدوروں کی موت واقع ہوئی ۔ ایک سیاح کے دم گھٹنے سے بھی مبینہ طور موت ہونے کی اطلاع ہے ۔ جمعہ کو آدھ فٹ سے لے کر دو ڈھائی فٹ کے برف گرنے کی اطلاع ہے ۔ یہ موسم کی پہلی برف باری ہے جس نے پوری وادی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ اس طرح کے موسمی حالات سے جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے زندگی کی معمولات درہم برہم ہوکر رہ گئیں ۔ قومی شاہراہ پہلے ی روز بند ہوگئی ۔ لداخ کے لئے جانے والے روڑ کو پہلے ہی بند کیا گیا ۔ جمعہ کو ہوائی سروس بھی معطل کی گئی ۔ اس طرح سے وادی باقی دنیا سے کٹ کر رہ گئی ۔ حکومت نے تمام راشن گھاٹوں پر چاول وافر مقدار میں موجود ہونے کا اعلان کیا ۔ رسوئی گیس بھی بمطابق ضرورت موجود ہونے کا دعویٰ کیا گیا ۔ تاہم بجلی سپلائی میں بہت حد تک خلل پڑا ۔ سڑکوں سے برف ہٹانے کو ترجیح دی گئی اور تمام سڑکیں پہلے ہی روز آمدو رفت کے لائق بنادی گئیں ۔ لیکن پھسلن کی وجہ سے گاڑیوں کے چلنے میں مشکلات دیکھی گئیں ۔ سرکاری مشنری کو الرٹ کیا گیا ۔ ضلعی سطح پر کنٹرول روم قائم کرنے کا اعلان کیا گیا ۔ اس سے بہت حد تک راحت محسوس کی گئی ۔
کشمیر کے علاوہ دنیا کے بہت سے خطے ہیں جہاں موسم سرما کے دوران برف باری ہوتی ہے ۔ بلکہ کچھ علاقے ایسے بھی ہیں جہاں کشمیر سے زیادہ مقدار میں برف گرتی ہے ۔ لیکن وہاں روزمرہ کی زندگی اس قدر متاثر نہیں ہوتی جیسا کہ کشمیر میں دیکھنے وک ملتا ہے ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ برف باری کا پہلا اثر سرکاری دفتروں پر پڑتا ہے ۔ سرکاری اہلکار برف کے آثار دیکھتے ہی گھر کے اندر دبک جاتے ہیں اور ڈیوٹی پر آنا ضروری خیال نہیں کرتے ۔ یہاں تک کہ ہسپتالوں میں ضروری خدمات تک اثر انداز ہوتی ہیں ۔ جب سرکاری اہلکار ہلکی برف باری کو بھی چھٹی تصور کرنے لگیں تو ظاہر سی بات ہے کہ سرکاری خدمات کا بحال رہنا ہر گز ممکن نہیں ہے ۔ یہ صورتحال ہم اس روز سے دیکھ رہے ہیں جب سے کشمیر میں زندگی کا آغاز ہوا ہے ۔ جدید ٹکنالوجی اور دوسری سہولیات نے اس میں کسی قسم کی بھی بہتری پیدا نہیں کی ۔ یہاں وہی پرانا طرز عمل جاری ہے اور ایسے موسم کے دوران لوگوں کی خدمت کرنا بیگار کے برابر سمجھا جاتا ہے ۔ اس وجہ سے پورا زندگی کا بندو بست خلل انداز ہوتا ہے ۔ بیماروں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا ۔ یہاں تک کہ پرائیویٹ ہسپتالوں کاحال بھی ابتر ہوتا ہے ۔ خوش قسمتی سے پچھلے کچھ سالوں سے بجلی کی بحالی کو پہلی ترجیح مانا جاتا ہے ۔ اس وجہ سے نشیبی علاقوں میںراتوں رات بجلی بحال ہوتی ہے ۔ یہ ایک حساس معاملہ بن گیا ۔ بجلی کچھ گھنٹے بند ہوجائے تو ہر طرف شور وبکا کاسلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔ اس کا نتیجہ ہے کہ بجلی بہت جلد بحال ہوتی ہے ۔ البتہ دوسری سروسز ایسے حالات میں کئی کئی روز تک ؓحال نہیں ہوجاتی ہیں ۔ اس حوالے سے شکایات سنی نہیں جاتی ہیں ۔ ایڈمنسٹریشن بجلی بحال ہونے کے بعد مطمئن ہوجاتی ہے اور باقی سہولیات کی طرف توجہ نہیں دی جاتی ہے ۔ یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ کشمیر میں سردیوں کے موسم میں موت کے واقعات بڑھ جاتے ہیں ۔ شرح اموات میں کافی اضافہ ہوجاتا ہے ۔ ڈاکٹر اور اس محکمے کے بڑے بڑے جاگیردار اس کے لئے کئی بہانے تراش لیتے ہیں ۔ ہماری سوسائٹی میں ایسی ہر طرح کی صورتحال کے لئے پہلے تقدیر کا سہارا لیا جاتا ہے ۔ پھر موسمی حالات کو اس کا ذمہ دار مانا جاتا ہے ۔ طبی سہولیات کا نہ ہونا تسلیم ہی نہیں کیا جاتا ہے ۔ دمہ کے مریضوں ارو دوسری ایسی ہی بیماریوں میں ملوث مریضوں کے لئے سرما کا موسم جیسے موت کا فرشتہ بن کر آتا ہے ۔ اس کو معمول کا معاملہ قرار دیا جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ طبی ماہرین بھی اس طرح کی بے بنیاد اور بے تکی باتیں کرتے رہتے ہیں ۔ جاہلیت کی باتیں بڑی روانی اور فخر سے کی جاتی ہیں ۔ عقل اور دانائی سے دور ایسی باتیں کرنے والوں کو مذہبی حلقوں کا سہارا بھی حاصل ہے ۔ اس وجہ سے موت کو ایک قدرتی عمل مانا جاتا ہے ۔ کوئی شخص کھانا میسر نہ ہونے کی وجہ سے مرجائے تو اس کو قدرتی عمل نہیں مانا جاتا ہے ۔ کوئی شخص ادویات ملنے کی وجہ سے فوت ہوجائے تو اس کو قدرتی عمل نہیں سمجھا جاتا ہے ۔ لیکن طبی سہولیات کی عدم موجودگی میں کوئی شخص ہسپتال میں موت کا شکار ہوجائے تو اس کے لئے وہاں کے ڈاکٹر اور عملہ ذمہ دار نہیں ہوگا ۔ برف باری اور دوسرے غیر موافق حالات میں یہی کچھ ہوتا ہے ۔ سرکار کو ایسی اور دوسری بنیادی سہولیات میسر رکھنے کی طرف توجہ دینا ہوگا ۔ اتنا کافی نہیں ہے کہ بجلی بحال ہوئی اور راشن گھاٹوں میں ضرورت کے مطابق چاول میسر ہیں ۔ بلکہ زندگی کے دوسرے شعبوں کو متاثر ہونے سے بچانا ہے ۔ سرکاری اداروں اور وہاں کام کرنے والے تمام ہی اہلکاروں کو جواب دہ بنانا ضروری ہے ۔ یہ روایت آخر کب تک بحال رہے گی کہ بارش ہوتے اور برف گرتے ہی زندگی کی معمولات درہم برہم ہوجاتی ہیں ۔
