یوم جمہوریہ سے قبل منگلوار کو پورے جموں کشمیر میں ضلعی صدر مقامات پر فل ڈریس ریہر سل کا انعقاد کیا گیا ۔روایت کے مطابق اس موقعے پر مجوزہ تیاریوں کا جائزہ لیا گیا اور کئی جگہوں پر ثقافتی پروگرام منعقد کئے گئے ۔ انتظامیہ نے اس حوالے سے اطمینان کا اظہار کیا ہے ۔ یوم جمہوریہ کے سلسلے میں تیاریاں کئی روز سے جاری ہیں ۔ پولیس اور دوسرے سیکورٹی اداروں کے علاوہ اسکولی بچوں نے ان تقاریب میں حصہ لیا اور رنگا رنگ پروگرام پیش کئے۔اس طرح سے ریہرسل کے ذریعے عندیہ دیا گیا کہ ایک بار پھر یوم جمہوریہ کو بڑے پرتپاک انداز میں منایا جارہاہے ۔ دہلی میں منعقد ہ تقریب میں اس سال مصر کے صدر کو مہمان خصوصی کے طور دعوت دی گئی تھی ۔ دونوں ملکوں نے اس موقعے پر خیرسگالی کا اظہار کیا ۔ مرکزی سرکار نے کئی دن پہلے اعلان کیا تھا کہ یوم جمہوریہ کے موقعے پر اس سال خالص ایسے فوجی ساز وسامان کی نمائش کی جائے گی جو ملک میں تیار کیا ہوا ہے۔ جس میں بیرونی ممالک کی کمپنیوںکا سرے سے کوئی ہاتھ نہیں ۔ اس طرح سے اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا گیا ۔
جموں کشمیر میں یوم جمہوریہ ایک ایسے موقعے پر منایا گیا جب کچھ ہفتے پہلے ملی ٹنسی کے حوالے سے کئی ناخوشگوار واقعات پیش آئے ۔ راجوری کے ڈانگری گائوں میں مشتبہ جنگجووں کے ہاتھوں سات افراد ہلاک کئے گئے ۔ جموں میں بارود کا استعمال کرکے کئی دھماکے گئے ۔ ان دھماکوں سے نو عام شہری شدید زخمی ہوگئے ۔ اسی طرح سرینگر میں گرینیڈ پھینک کر ایک عام شہری کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے ۔ ان واقعات کے پیش نظر پورے جموں کشمیر میں سیکورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے ۔ اس سال ایک بار پھر سخت ترین سیکورٹی حصار میں یوم جمہوریہ منایا گیا ۔ یوم جمہوریہ کی تقریبات منانے کا مقصد ہے کہ عوام کو آئین کی اہمیت اور آزادی کی نعمت سے واقف کرایا جائے ۔ اگرچہ ملک پہلے ہی غیر ملکی تسلط سے آزاد ہوچکا تھا ۔ لیکن اپنا آئین تیار اور نافذ کرنے کا مرحلہ باقی تھا ۔ یہ اہم کام 26 جنوری 1950 کو انجام دیا گیا ۔ اس کے ساتھ ہی اعلان کیا گیا کہ آزاد ملک میں اب عوام کا راج نافذ ہوگا ۔ اس کا خواب یہاں کے رہنمائوں اور عوام نے کئی سال پہلے دیکھا تھا ۔ بلکہ آزادی کی جدوجہد کے دوران ساری قربانیاں اسی مقصد سے دی گئی تھیں ۔ اگرچہ کئی لوگوں نے بعد میں اس معاملے میں اپنے تحفظات کا اطہار کیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ وہ سحر نہیں جس کی تمنا کی گئی تھی ۔ انگریزوں کے چلے جانے کے بعد جس طبقے نے ملک پر گرفت حاصل کی اس نے مبینہ طور عوام کی خدمت کے بجائے اپنا تسلط جمانے کی کوشش کی ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ آئین کو عوامی کواہشات کے مطابق تیار کیا گیا نہ چلنے دیا گیا ۔ غریب اور پسماندہ لوگوں کا خیال تھا کہ غلامی کے دور میں انہوں نے جس طرح کی سختیاں اٹھائی تھیں ان سے نجات حاصل ہوگی اور آرام وآسائش کی سہولیتیں مہیا ہونگی ۔ لیکن ایسا نہیں ہوسکا ۔ ستھر سالہ جمہوریت کے بعد بھی کئی طبقے حقوق حاصل کرنے کی جدوجہد کررہے ہیں ۔ اسے مایوس کن بات قرار دیا جارہاہے ۔ دنیا ہندوستان کو ایک جمہوری ملک کے طور جانتی ہے ۔ لیکن یہاں کے عوام آج تک جمہوری قدروں سے محروم ہیں ۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد آج بھی غربت کی ریکھا سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔ کسان پہلے انگریزوں کے ہاتھوں استحصال کا شکار تھے ۔ آج منڈیوں پر قبضہ کرنے والے ساہوکاروں سے لوٹے جارہے ہیں ۔ بے روزگاری اسی طرح موجود ہے جس طرح سے آزادی سے پہلے لوگوں کے لئے سوہان روح بنی ہوئی تھی ۔ کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کے لئے آئین نہیں بلکہ آئین کو غلط راستے پر ڈالنے والے سیاست دان ذمہ دار ہیں ۔ ان سیاست دانوں نے کبھی لوگوں کا معیار زندگی بہتر بنانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی ۔ پنج سالہ منصوبے بنائے گئے ۔ پارلیمنٹ میں سالانہ بجٹ پیش کرکے لوگوں کو نئے اور سنہرے خواب دکھائے گئے ۔ لیکن یہ خواب کبھی بھی پورے نہ ہوسکے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملک سے رشوت ختم ہونے کے بجائے اس کا چلن بہت بڑھ گیا ۔ جموں کشمیر میں اس حوالے سے سخت پریشان کن صورتحال پائی جاتی ہے ۔ کئی حلقوں کی طرف سے کئی گئی سروے رپورٹوں میں بتایا گیا کہ کشمیر کا رشوت کے حوالے سے پورے ملک میں پہلا یا دوسرا نمبر ہے ۔ کشمیر کا آئین میں موجود خصوصی درجہ ختم کرنے کے بعد بتایا گیا تھا کہ رشوت کا خاتمہ کیا جائے گا ۔ لیکن آج ایک بار پھر یہ دیکھ کر مایوسی ہورہی ہے کہ رشوت کے معاملے میں ہمارا گراف بہت بڑھ گیا ۔ زندگی کے باقی شعبوں میں تنزلی کا الزام لگایا جاتا ہے ۔ اس کے بجائے رشوت ستانی میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ خاص طور سے سرکاری اداروں میں اس نے تمام حدیں پار کی ہیں ۔ یوم جمہوریہ کے موقعے پر اس بات کی ضرورت ہے کہ عوام کو اس مصیبت سے نجات دلائی جائے ۔ جب ہی یوم جمہوریہ منانا کوئی معنی رکھتا ہے ۔
