رواں مالی سال کے لئے مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے جو بجٹ پیش کیا اس حوالے سے ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے ۔ جیسا کہ ایسے ہر موقعے پر ہوتا ہے کہ حکومت کی حمایت کرنے والے حلقے بجٹ کو عوام دوست مان لیتے ہیں ۔ اس کے برعکس حکومت مخالف حلقے اسے ہمیشہ عوام دشمن بجٹ قرار دیتے ہیں ۔ آج کے موقعے پر یہی دیکھنے کو ملا ۔ وزیراعظم نے بجٹ کو ایک سود مند بجٹ بتایا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اپنی نوعیت کا اہم بجٹ ہے ۔ بی جے پی سے منسلک تجارتی حلقوں نے بجٹ کو تجارت پیشہ لوگوں کے لئے بہت ہی متناسب بجٹ قرار دیا ہے ۔ بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہ لگانے پر ان حلقوں نے بجٹ کی تعریف کی ہے ۔ ادھر سابق وزیرخزانہ اور کانگریس کے معروف لیڈر پی چدامبرم نے بجٹ کو عوام دشمن بجٹ بتایا ہے ۔ بجٹ پر پارلیمنٹ سے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ بجٹ میں عوامی ضرورت کی کوئی چیز موجود نہیں ہے ۔ انہوں نے اس بات پر مایوسی ظاہر کی کہ کسانوں اور بے روزگار نوجوانوں کے لئے بجٹ میں کوئی سہولت نہیں رکھی گئی ہے ۔ اسی طرح دوسرے کئی ایسے حلقوں نے بجٹ پر اپنے تبصرے میں اسے مایوس کن بجٹ قرار دیا ہے ۔ بجٹ پر پارلیمنٹ میں بحث ہونا باقی ہے ۔ اس دوران دونوں طرف سے کوشش کی جائے کہ بجٹ کے مفید اور مضر پہلووں سامنے لائیں جائیں ۔
عام لوگوں کو بجٹ سے بس اتنا سا تعلق ہے کہ ان کی روزمرہ استعمال کی قیمتوں میں کمی یا اضافہ کہاں تک ہوتا ہے ۔ بجٹ سے حصص بازار پر کیا اثر پڑے گا اور امیر لوگوں کے لئے کیا سہولیات رکھی گئی ہیں ، ایک عام شہری کو اس سے کوئی غرض نہیں ۔ اسے یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ کھانے پینے کی اشیا ، پہننے کے لباس اور دوسری عام نوعیت کی ضروریات کس دام بکتی ہیں ۔ ایک غریب شہری کو دو وقت کی روٹی اور کم از کم تن ڈھانپنے کے لئے کپڑا چاہئے ۔ اس حوالے سے اس کی نظر آںے والے بجٹ پر ہوتا ہے ۔ اب تک یی دیکھا گیا ہے کہ ان روزمرہ کی استعمال کی چیزوں پر بجٹ سے کوئی اثر نہیں پڑتا ہے ۔ لیکن بجٹ میں جو دوسرے مصارف ہوتے ہیں ان کا بالواسطہ اثر تمام چیزوں پر پڑتا ہے ۔ سیگریٹوں کی قیمت بڑھانے سے یقینی طور ایک عام شہری کے متاثر ہونے کا کوئی چانس نہیں ہے ۔ لیکن پٹرول کے دام بڑھنے سے ، ریل کرایوں میں اضافے اور کئی دوسری اشیا کی ٹیکس بڑھانے سے ایک عام شہری کی زندگی پر ضرور اثر پڑتا ہے ۔ ضروری نہیں ہے کہ حکومت ایسی اشیا کے ٹیکسوں میں اضافہ کرے ۔ لیکن بڑے تاجروں کو جو کچھ بھی حکومت کی طرف ادا کرنا پڑتا ہے سارا کچھ وہ عام خریدار سے ہی حاصل کرتے ہیں ۔ بڑے بڑے تاجروں کی آمدنی میں اسی وجہ سے دن بہ دن اضافہ ہوتا ہے کہ اس کے اصل زر پر کسی قسم کا اثر نہیں پڑتا ہے ۔ ایسے لوگ بڑے ماہر ہوتے ہیں ۔ وہ اپنی آمدنی اور نہ ہی منافع کی رقم گھٹنے دیتے ہیں ۔ ان کی تجوریوں سے نکلنے والے اخراجات عام شہری کی جیب سے ادا ہوتے ہیں ۔ یہ اپنی اصل رقم کہیں بھی ڈوبنے نہیں دیتے ۔ یہی وجہ ہے کہ عام شہری بجٹ کے کسی اچھے یا برے پہلو سے اب کوئی دلچسپی نہیں رکھتا ہے ۔ اسے معلوم ہوچکا ہے کہ بجٹ گورکھ دھندوں یا اعداد و شمار سے اس کی زندگی کسی صورت بہتر نہیں ہونے والی ہے ۔ ماضی میں کانگریس حکومت یا کسی مخلوط سرکار نے بجٹ پیش کیا ۔ یا اب کئی سالوں سے بی جے پی سرکار بجٹ تیار کررہی ہے ۔ سب کا مطمع نظر ایک ہی ہوتا ہے ۔ پہلے ایک عام شہری کی زندگی کا معیار بلند ہوا نہ اب ایسا ہونے کی امید کی جاسکتی ہے ۔ ٹیکسوں کا بیشتر حصہ قرضوں اور سود کی ادائیگی کے علاوہ بڑے بڑے لوگوں کی ادائیگوں پر صرف ہوتا ہے ۔ اس کا معمولی حصہ عام شہری کے لئے بنیادی سہولیات بہم پہنچانے کے لئے استعمال میں لایا جاتا ہے ۔ یہ پچھلے ستھر سالوں کی روایت ہے ۔ سرکار کوئی بھی آئی یا اب آئے ایک غریب اور پسماندہ شہری کے روز مرہ کے معمولات پر کوئی مثبت اثر پڑنا ممکن نہیں ہے ۔ بجٹ میں جموں کشمیر کے لئے بھی ایک بڑی رقم مشخص رکھی گئی ہے ۔ کئی پروجیکٹوں پر رقوم خرچ کرنے کی بات کی گئی ہے ۔ اس پر کئی حلقوں نے خوشی کا اظہار کیا ۔ اس کے بجائے اپوزیشن جماعتوں نے حسب معمول اس پر مایوسی کا اظہار کیا ۔ بجٹ پر منفی تاثر دینے والوں کا کہنا ہے کہ جموں کشمیر میں بے روزگاری پر قابو پانے کی ضروریات ہے ۔ یہاں بے روزگاری نے جو صورتحال اختیار کی ہے اس کے نتیجے میں نوجوان بلکہ تمام ہی لوگ سخت ذہنی تنائو کا شکار ہیں ۔ آئے روز ایسے حادثات پیش آتے ہیں جو مبینہ طور ذہنی تنائو کا نتیجہ ہوتے ہیں ۔ پہلے اس قدر بے روزگاری اور بے کاری کبھی بھی نہیں دیکھی گئی تھی ۔ حکومت پچھلے تین سالوں سے یقین دلا رہی ہے کہ یہاں کے عوام بہت ضلد خوشحالی کا ماحول دیکھیں گے ۔ لیکن ایسے وعدے آج تک وفا نہ ہوسکے اور مالی حالات آئے دن خراب ہورہے ہیں ۔ اس وجہ سے بجٹ کے ساتھ عوام اپنی کوئی خوش فہمی ظاہر کرنے سے قاصر ہیں.
