حکومت نے رواں سال سے جموں کشمیر میں پراپرٹی ٹیکس وصول کرنے کے احکامات جاری کئے ہیں ۔ اس حوالے سے سامنے آئی نوٹفکیشن کے مطابق یہ ٹیکس یکم اپریل سے نافذالعمل ہوگا۔ پہلے مرحلے پر یہ ٹیکس بلدیاتی حلقوں سے اکٹھا کیا جائے گا ۔ بعد میں اس کا دائرہ وسیع کئے جانے کا اندازہ ہے ۔ نوٹیفکیشن میں تفصیل سے ٹیکس کی وصولیابی کی ہدایات دی گئی ہیں اور مختلف تعمیرات کے بارے میں ٹیکس نظام واضح کیا گیا ہے ۔ ٹیکس کی شرحیں اور اس حوالے سے دیگر تفصیلات بھی حکم نامے میں موجود ہیں ۔ اس غرض سے متعلقہ اداروں اورحکام کو واضح ہدایات دی گئی ہیں۔ حکم نامے میں ٹیکس وصولی کے خد وخال بھی بیان کئے گئے ہیں ۔ اس سے ا ندازہ ہو رہاہے کہ ٹیکس رہائشی اور غیر رہائشی تمام تعمیرات پر وصول کیا جائے گا ۔ اس طرح سے دوسرے کئی علاقوں کی طرح جموں کشمیر میں بھی جائداد ٹیکس کے اصول وضوابط کو نافذ کیا جارہاہے ۔ عوامی حلقوں میں اس حوالے سے تحفظات پائے جاتے ہیں ۔ تاہم حکم نامے سے یہی اندازہ ہے کہ سرکار نے بلا کسی تاخیر کے پراپرٹی ٹیکس وصول کرنے کا فیصلہ لیا ہے اور سال رواں کے دوران اس ٹیکس کو شہریوں سے وصول کیا جائے گا ۔ اس میں شاید اب کو ئی تخفیف یا ترمیم ممکن نہیں ۔
این سی رہنما عمر عبداللہ نے پراپرٹی ٹیکس وصول کرنے کی تنقید کرتے ہوئے اسے یک طرفہ فیصلہ قرار دیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ عوام کو اعتماد میں لئے بغیر جائداد ٹیکس وصول کرنے کے احکامات غیر منصفانہ ہیں ۔ عمر عبداللہ نے حکم نامہ کو اپنی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ عوامی نمائندوں کی عدم موجودگی میں سرکار کو اس طرح کا کوئی فیصلہ لینے کا حق نہیں ۔ اپنے ٹویٹ میں انہوں نے اسے عوام دشمن فیصلہ قرار دیا ۔ اسی طرح پی ڈی پی سربراہ محبوبہ مفتی نے پراپرٹی ٹیکس کی وصولیابی کو جاگیردارانہ نظام کی باقیات قرار دیتے ہوئے اسے جموں کشمیر کے عوام کو کنگال بنانے کا اقدام قرار دیا ۔ سیاسی اور عوامی حلقوں کے تحفظات کے باوجود سرکاری حکم نامے پر یکم اپریل 2023 سے عمل درآمد کرنے کا فیصلہ لیا گیا ہے ۔ جموں کشمیر کے عوام اس طرح کے اقدامات کے عادی نہیں ہیں ۔ پچھلے ستھر سالوں سے یہاں کے عوام حکومت کی طرف سے دی گئی سہولیات پر زندگی گزاررہے ہیں ۔ اس معاملے سیاسی حلقوں کا خاصال رول رہا ۔ سیاسی رہنمائوں نے مرکز سے ملنے والے فنڈس کو تعمیراتی کاموںپر خرچ کرنے کے بجائے زیادہ تر ذاتی اور مخصوس حلقوں کی تجوریوں میں جانے کو فوقیت دی ۔ کبھی یہ کوشش نہیں کی گئی کہ ریاست کے اپنے وسائل کو فروغ دے کر عوام کو محدود سہولیات پر زندگی گزارنے کی ترغیب دی جائے ۔ لوگوں کو ناجائز آمدنی اور سرکاری مراعات پر زندگی گزارنے کا عادی بنایا گیا ۔ اس دوران دوسرے ٹیکس تو کیا بجلی فیس اور انکم ٹیکس کی وصولیابی پر کبھی زور نہیں دیا گیا ۔ یہی وجہ سے کہ ستھر سال بعد آج جب اچانک سرکاری اصول وضوابط کے نفاذ کی بات سامنے آتی ہے تو لوگ چیخ اٹھتے ہیں ۔ ان احکامات کو مرکز کی کشمیر کے عوام کے خلاف محاذ آرائی قرار دیا جاتا ہے ۔ بہ ظاہر یہی ہے ۔ لیکن اصل صورتحال اس سے بالکل الگ ہے ۔ جموں کشمیر کے اپنے جو قدرتی وسائل ہیں ان سے کوئی فائدہ اٹھانے اور ان کا بہتر استعمال کرنے کے بجائے ہمیشہ مرکز کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی گئی ۔ کمزور حکومتوں کو سہارا دینے کا یہ آسان نسخہ بنادیا گیا کہ عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کی جائیں ۔ انہیں وہ تمام مالی فائدے پہنچائے جائیں جن کی وہ ڈیمانڈ کریں ۔ اس کے معاوضے میں ان سے کچھ بھی طلب نہ کیا جائے ۔ یہاں تک کہ سرکاری اداروں کے لوٹ کھسوٹ کی کھل کر اجازت دی گئی ۔ چوردروازوں سے آئے بلکہ لائے گئے حکمرانوں کے خلاف عوامی بغاوت کے امکان کو کم کرنے کے لئے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ مراعات دینے کے اعلانات کئے گئے ۔ اس ذریعے سے عوام کو رام تو کیا گیا لیکن ذمہ دار شہری بننے کی عادت معدوم ہوگئی ۔ لوگ سرکاری امداد پر پیٹ پالنے کے عادی بن گئے ۔ یہ امداد اچانک بند ہو نے سے بھک مری کا خدشہ ہونے لگتا ہے۔ اس کی جہاں بہت سی وجوہات ہیں وہاں ایک بڑی وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ ماضی کے حکمرانوں نے کبھی بھی روزگار کے اپنے وسائل پیدا کرنے کی طرف توجہ نہیں دی ۔ قدرتی وسائل موجود ہونے کے باوجود ان سے فائدہ اٹھانے اور نئی نسل کے لئے روزگار فراہم کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی ۔ آج جب معمولی نوعیت کا پراپرٹی ٹیکس بھرنے کی ہدایت دی جاتی ہے تو لوگ اسے اپنے لئے بار گراں محسوس کرتے ہیں ۔ یہاں ایک بڑا طبقہ ایسا پایا جاتا ہے جو اس طرح کا ٹیکس ادا کرنے کی واقعی سکت نہیں رکھتا ۔ یہی وجہ ہے کہ عوام پراپرٹی ٹیکس کو مجموعی طور نامعقول قرار دیتے ہیں ۔ سیاسی مخالفت سے قطع نظرزمینی حالات کو مدنظر رکھنا بھی ضروری ہے ۔
