سنجے پنڈت کی ہلاکت سے کیا کچھ حاصل ہونے والا ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے ۔ تاہم اس کے یتیم بچوں کے چہروں کو دیکھ کر اپنے آنسو روکنا ممکن نہیں ہے ۔ان کے ہونٹوں سے مسکراہٹ کا چھن جانا یقینی طور سنگ دل سے سنگ دل شخص کو بھی آنسو بہانے پر مجبور کرسکتی ہے ۔ اس ہلاکت پر پورے علاقے میں صف ماتم بچھ گیا ہے ۔ سیاسی لیڈروں نے اس واقعے کی مزمت کی ۔ عام لوگوں نے اس پر دکھ کااظہار کیا ۔ نوجوانوں کی طرف سے سخت احتجاج کیا جارہاہے ۔ بعض حلقوں نے اس ہلاکت کے خلاف موم بتیاں جلاکر اپنے احساسات کا اظہار کیا ۔لیفٹنٹ گورنر کی طرف سے اس پر کڑی نکتہ چینی کی گئی۔ پولیس کی طرف سے یقین دہانی کی جارہی ہے کہ ہلاکت میں ملوث افراد کو جلد ہی کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا ۔ یاد رہے کہ ہلاکت کا یہ واقع اتوار کو پلوامہ کے اچھن علاقے میں پیش آیا جب نامعلوم اسلحہ برداروں نے سنجے شرما نامی ایک شہری پر نزدیک سے گولیاں چلاکر اسے ابدی نیند سلادیا ۔ سنجے متوسط خاندان سے تعلق رکھتا تھا اور مبینہ طور مقامی بینک شاخ میں بطور محافظ کام کررہاتھا ۔ اس ہلاکت پر مقامی لوگوں نے سخت حیرانی اور ذاتی دکھ کا اظہار کیا ۔
پلوامہ میں پیش آئے ہلاکت کے اس واقعے کے حوالے سے لوگوں میں مشترکہ صدمے کا اظہار کیا جارہاہے ۔ لوگ اس بات پر پاریشان نظر آرہے ہیں کہ ایک عام اور سادہ لوح شخص کی ہلاکت سے کس کاز کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ سنجے کسی بھی طرح ایسے کیڈر کا شہری نہیں ہے جس سے اعلیٰ ایوانوں میں کسی طرح کی بھی خلش محسوس کی جاسکتی ہے ۔ اس ہلاکت سے حکومت کے کام کاج میں ذرہ برابر فرق آسکتا ہے نہ انتظامیہ کسی قسم کی کمزوری محسوس کرسکتی ہے ۔ ایک عام اور کمزور شخص کی ہلاکت سے کوئی مقصد حاصل کرنا ہر گز بھی ممکن نہیں ۔ اس وجہ سے کشمیری عوام کی صفوں میں خوف و ہراس کے علاوہ مزید بیوائوں اور یتیموں کا اضافہ ہوسکتا ہے ۔ اس کے علاوہ کسی کے لئے کوئی مقصد حاصل کرنا ممکن نہیں ۔ تاہم یہ بات شدت سے محسوس کی جاسکتی ہے کہ ایسی ہلاکتوں کو محض روایتی بیانات دے کر روکا نہیں جاسکتا ہے ۔ جہاں انتظامیہ ایسی ہلاکتوں کو روکنے میں ناکام ہوئی وہاں اہم بات یہ ہے کہ سیاسی حلقوں کی طرف سے ان ہلاکتوں کے حوالے سے کوئی پالیسی تیار نہیں کی جاسکی ہے ۔ ہلاکت سے بہنے والا خون خشک ہونے کے بعد سیاسی لیڈر اشک شوئی کے لئے ضرور سامنے آتے ہیں ۔ بیوائوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر اور یتیموں کے ساتھ فوٹو کھینچ کر رخصت ہوجاتے ہیں ۔ اس کے بعد کوئی ان کا نام لینے والا بھی نہیں ہوتا ہے ۔ سنجے اور اس کے اہل وعیال کی بدقسمتی ہے کہ وہ اپنی آبائی زمین اور جنم بھومی کو چھوڑ کر کسی دوسرے علاقے میں زندگی گزارنے پر آمادہ نہ ہوا ۔ ایسا کرکے اس کے لئے بہت سی مراعات اور اپنے بچوں کا مستقبل بہتر بنانے میں یقینی طور مدد ملتی ۔ لیکن اس نے اپنی زمینوں سے جڑے رہنے کو فوقیت دی ۔ اس کے نتیجے میں اسے اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا ۔ اپنی جنم بھومی پر قربان ہونے کا دعویٰ کرنا الگ بات ہے ۔ اس کا عملی طور سامنا کرنا دوسری بات ہے ۔ اس کا خمیازہ جسے چکھنا پڑتا ہے یہ وہی جانے ۔ باقی لوگ اس پر شاباشی دے سکتے ہیں ۔ لیکن اس کے نتائج بھگتنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ۔ سنجے اور اس کے اہل خانہ نے جنم بھومی سے اپنی محبت اور عقیدت کا عملی ثبوت دیا ۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ ۔ تاہم اس کا نتیجہ سامنے آنے کے بعد اس کا اندازہ لگانا سخت تکلیف کا باعث ہے ۔ کئی حلقے ایسی ہلاکتوں سے من پسند نتائج حاصل کرنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں ۔ماضی میں اس طرح کی ہلاکتوں کے المناک واقعات پیش آئے ۔ انتظامی اور سیاسی حلقوں نے ان سے کئی طرح کے فوائد حاصل کئے ۔ ان ہلاکتوں کا بڑے پیمانے پر استحصال کیا گیا ۔ کئی نئے سیاسی محاذ تشکیل پائے ۔ بلکہ کئی لوگوں نے ایسی ہلاکتوں کو لے کر اقتدار کے مزے لوٹے ۔ وزارتوں کے مزے چکھے ۔ لوٹ کھسوٹ کی چھٹی حاصل کی ۔ یہاں تک کئی ایسے لوگ جو چوتھے درجے کی سرکاری ملازمت حاصل کرنے کے اہل نہ تھے بڑے بڑے سرکاری عہدے حاصل کرنے اور ترقیاں پانے میں کامیاب ہوگئے ۔ ایسے لوگ آج بھی امن کے مخالف اور ہلاکتوں کے حامی ہیں ۔ ہلاکتوں اور ہلاکتوں پر تجارت کا یہس سلسلہ کب تک جاری رہے گا اس حوالے سے کچھ کہنا مشکل ہے ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ایسی ہلاکتوں کو روکنے کی ساری ذمہ داری پولیس پر ڈالی جاتی ہے ۔ پولیس ان ہلاکتوں میں ملوث افراد کو تلاش کرکے ان سے نپٹ لیتی ہے ۔ یہاں تک کہ کوئی نیا کرایے کا سپاہی تیار ہوکر مزید عام شہریوں پر گولیاں برساتا ہے ۔ اس دوران انتظامی اہلکار ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ کر تماشہ دیکھتے رہتے ہیں ۔ ان کا اس حوالے سے رول مایوس کن رہتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی ہلاتوں کو پوری طرح سے روکنا ممکن نہیں ہورہاہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام حلقے یکجا ہوکر ان ہلاکتوں کو روکنے کے لئے سامنے آئیں ۔ صرف بیان بازی کافی نہیں ہے ۔
