جموں کشمیر سرکار نے جمعرات کو اپنے دو آفیسروں کے خلاف تادیبی کاروائی کرتے ہوئے ایک اچھی مثال قائم کی ۔ ایک حکم نامے کے مطابق نوگام میں کام کرنے والے پولیس سب ڈویژنل آفیسر کو اپنی ذمہ داریوں سے فارغ کرتے ہوئے کرائم برانچ کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے تاکہ اس کے خلاف تحقیقاتی کام پر کوئی اثر نہ پڑے ۔ حکم نامے میں واضح کیا گیا ہے کہ مذکورہ پولیس آفیسر کے خلاف الزام ہے کہ بحیثیت ایک ذمہ دار پولیس آفیسر کے اس کا رویہ ٹھیک نہیں ہے ۔اس تناظر میں اس کے خلاف کاروائی لازمی بن جاتی ہے ۔ اسی روز اجرا کئے گئے دوسرے حکم نامے کے تحت بانڈی پورہ میں کام کرنے والے ایک اور پولیس آفیسر کو معطل کرکے اپنے کام سے فارغ کیا گیا ہے ۔ دونوں پولیس آفیسروں کے حوالے سے الزام لگایا گیا ہے کہ پورے محکمہ کے لئے بدنامی کا باعث بن رہے ہیں ۔ اس سے پہلے بھی کچھ پولیس آفیسروں کے خلاف مبینہ طور رشوت اور دوسرے خرد برد کے الزامات لگنے کے بعد کاروائی کی گئی ۔ لیکن ایسا شاید پہلی بار سامنے آیا ہے کہ اپنے اٹھنے بیٹھنے یا طرز عمل میں نقص کی بنیاد پر کسی پولیس آفیسر کے خلاف کاروائی کی جارہی ہے ۔
ایک ایسے مرحلے پر جبکہ نچلی سطح سے لے کر وزیرداخلہ اور وزیراعظم تک کشمیر پولیس کا نام فخر سے لے رہے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر پولیس پورے ملک میں اپنے پیشہ ورانہ کام کی وجہ سے قابل فخر ادارہ ہے ۔ سیکورٹی سے تعلق رکھنے والے تمام حلقے کشمیر پولیس کو ایک جاندار ادارہ قرار دیتے ہیں ۔ انہیں شاباشی دیتے اور ان کے کام کرنے کے طریقے کی تعریف کرتے ہیں ۔ پچھلے کئی سالوں کے دوران پولیس فورس کی طرف سے نمایاں کارنامے انجام دینے کی وجہ سے اسے کئی تمغوں سے نوازا گیا ۔ اس کے علاوہ اسے ایک قابل بھروسہ فورس سمجھا جاتا ہے ۔ تعریفوں کے اس معیار پر پورا اترنے کے لئے ضروری ہے کہ پولیس کا ہر کارکن مثالی کردار پیش کرے ۔ ایک پولیس اہلکار کی معمولی غلطی سے پورا فورس بدنام ہوسکتا ہے ۔ اس سے پہلے جموں کشمیر میں پولیس فورس کو باعزت ادارہ نہیں سمجھا جاتا تھا ۔ عام لوگوں کے اندر اس کی کچھ زیادہ وقعت نہ تھی ۔ بہت کم لوگ اس فورس میں کام کرنا پسند کرتے تھے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پولیس اہلکاروں کے اندازبیان کو کسی طور پسند نہیں کیا جاتا تھا ۔ ان کے طرز تخاطب کے حوالے سے یہ عام تاثر تھا کہ اپنے باپ کی عزت کرنا بھی انہیں آتا نہیں ہے ۔ عام طور پر لوگ تھانوں سے دور رہنے کو ترجیح دیتے تھے۔ اس دوران پچھلے کچھ عرصے سے پورے معاشرے میں بڑی تبدیلیاں آرہی ہیں ۔ خاص کر ادب و تہذیب کے حوالے سے لوگوں کی سوچ بدل چکی ہے ۔ بات کرنے کا انداز بدل گیا ہے اور ایک دوسرے کی عزت کرنا لوگوں نے سیکھ لیا ہے ۔ پولیس کے اندر بھی اس طرح کی تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں ۔ لوگ اب پولیس کو سماج کا قابل نفرت حصہ نہیں بلکہ ایک اہم ادارہ سمجھتے ہیں ۔ پولیس نے لوگوں کے ساتھ پیش آنے کے اپنے طرز فکر میں کسی حد تک تبدیلی لائی ہے ۔ اگرچہ بعض موقعوں پر ایسا کرنا ممکن نہیں ہے ۔ بلکہ جارحانہ رویہ اختیار کرنا پڑتا ہے ۔ زور زبردستی نہ کی جائے تو اپنا دبائو قائم رکھنا ممکن نہ ہوگا ۔ تاہم اپنا وقار بحال رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ روزمرہ کے معاملات میں شرافت سے کام لیا جائے ۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر مسئلہ کا حل گالی اور ڈھنڈے سے تلاش کیا جائے اور بات بات میں بد ذوقی کا اظہار کیا جائے ۔ خاص طور سے اپنے ماتحت عملے کے ساتھ پیش آنے میں احتیاط لازمی ہے ۔ ایسا صرف پولیس کے اندر عام ہے کہ ماتحت اہلکاروں کو بے عزت کرنا آفیسر کا قانونی حق سمجھا جاتا ہے ۔ ہوسکتا ہے ماضی میں اس کی کچھ وجوہات رہی ہوں ۔ تاہم اب بدلے ہوئے دور میں یہ روش جاری رکھنا ضروری ہے ۔ ہر شہری اور ہر سرکاری ملازم کے اپنے حقوق ہیں ۔ ان حقوق کو پامال کرکے عوام یا سرکار کی کوئی خدمت نہیں کی جاسکتی ہے ۔ پولیس کو عوام میں اپنا وقار بڑھانے کے لئے اپنی زبان اور طرز تخاطب کو معتبر بنانا ہوگا ۔ ایک عام شہری کے لئے یہ ممکن نہیں کہ پولیس والے کو قانون سکھائے اور اسے تہذیب و اقدار کی تعلیم دے ۔ کوئی پولیس والا ایسا سبق پڑھنے پر آمادہ نہیں ہوسکتا ۔ یہ پولیس کی ذمہ داری ہے کہ عام لوگوں کو قانون کی پاسداری کے لئے تیار کرے ۔ اس کے بجائے معاملہ الٹا ہو تو یہ قوم اور ملک کی بدقسمتی ہے ۔ پولیس کئی موقعوں پر اچھی کارکردگی دکھانے میں آگے آگے نظر آتی ہے ۔ قدرتی آفات اور دوسرے مصائب کے موقعوں پر پولیس لوگوں کو سہولیات پہنچانے میں بڑی فعال نظر آتی ہے ۔ خون کا عطیہ دینا ہو یا طبی سہولیات بہم پہنچانی ہوں تو لوگوں کے کام آکر انہیں مرعوب کیا جاتا ہے ۔ ایسے نمایاں کاموں سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ اس کے باوجود اب بھی پولیس کے اندر عوام دوست رویے کو عام کرنے کی ضرورت ہے ۔
