مختلف حلقوںکی ملک دشمن سرگرمیوں کی جانچ پڑتال کے بعد ٹھیکہ داروں کے لئے پولیس تصدیق لازمی قرار دی گئی ہے ۔ اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ ساڑھے تین سو کے قریب مشکوک ٹھیکہ داروں کی جانچ کی جارہی ہے ۔ ایک اطلاع کے مطابق تین درجن ایسے ٹھیکہ داروں کے کارڈ پہلے ہی منسوخ کئے جاچکے ہیں جن کے بارے میں شک و شبہات پائے جاتے تھے ۔ انتظامیہ نے ایسے تمام ٹھیکہ داروں کے نام کسی قسم کا سرکاری کام جاری کرنے پر روک لگادی ہے جن کا علاحدگی پسندوں کے ساتھ تعلق رہا ہو ۔ سرکار کو شبہ ہے کہ بہت سے ٹھیکہ داروں کے تعلقات عسکریت پسندوں کے ساتھ ہیں ۔ ایسے ٹھیکہ داروں کے کارڈ منسوخ کرنے کے علاوہ ان کے نام واجب الادا رقم راک دینے کے احکامات دئے گئے ہیں ۔ انجینئرنگ ڈپارٹمنٹوں سے کہا گیا ہے کہ ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ٹھیکہ داروں کو کوئی کام کرنے کی اجازت ہوگی نہ ان کے نام پر کوئی بھی واجب الادا رقم واگزار کی جائی گے ۔ کئی خبر رساں ایجنسیوں کی طرف سے تصدیق کی گئی ہے کہ ٹھیکہ داروں کی پولیس کے ذریعے جانچ کی جارہی ہے اور کسی بھی ملک دشمن شخص کو سرکاری ٹھیکے الاٹ کرنے کی اجازت نہ ہوگی ۔
حکومت اس بات کا فیصلہ لے چکی ہے کہ علاحدگی پسندوں کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلق کو برداشت نہیں کیا جائے گا ۔ خاص طور سے سرکاری سرگرمیوں کے ساتھ ایسے عناصر کو منسلک رکھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔ پہلے بیسیوں سرکاری ملازموں کو نوکریوں سے نکال دیا گیا ۔ پچھلے دنوں ایسے سرکاری ملازموں کی چھٹی کی گئی جن کے عزیز واقارب سرحد پار مقیم ہیں اور وہاں مبینہ طورملک کے خلاف سازشیں کررہے ہیں ۔ اسی طرح درجنوں ایسے افراد کو بھی سرکاری نوکریوں سے نکال دیا گیا جو رشوت کے لین دین میں ملوث پائے گئے ۔ جموں میں کئی درجن ان رہبر تعلیم کو دو دہائیوں کے بعد ان کی نوکریوں سے برطرف کیا گیا جنہوں نے ملازمت حاصل کرنے کے ایسی یونیورسٹیوں سے اسناد حاصل کی تھیں جو تصدیق شدہ نہیں ہیں ۔ اسی طرح ان ڈاکٹروں کی بھی چھٹی کی گئی جو ملک سے باہر کام کررہے ہیں اور واپس آنے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔اس طرح کی کانٹ چھانٹ پچھلے تین سالوں سے تسلسل کے ساتھ جاری ہے ۔ حکومت کا کہنا ہے کہ تین دہائیوں کی ملی ٹنسی کے دوران جب قانون کی بالادستی ختم کی گئی تھی کئی ناجائز کام کئے گئے ۔ ایسے کاروبار میں ملوث افراد کے خلاف سرعت کے ساتھ کاروائی کی جارہی ہے ۔ حکومت نے اس کو بڑا ہی سیریس مسئلہ قرار دیا ہے اور اس طرح کے ناجائز عمل کے خلاف کاروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اسی تناظر میں اب ٹھیکہ داروں کے حوالے سے پولیس کے ذریعے جانچ پڑتال کی جارہی ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ تیس سالہ ملی ٹنسی کے دوران کئی ان افراد کے نام ٹھیکے الاٹ کئے گئے جن کو عسکریت پسندوں کی حمایت حاصل تھی ۔ ملی ٹنسی سے پہلے ایسے سرکاری ٹھیکے سیاسی بنیادوں پر الاٹ کئے جاتے تھے ۔ بلکہ ایسے کاموں پر سیاسی کارکنوں کی اجارہ داری قائم تھی ۔ یہ تو ان کا آئینی حق سمجھا جاتا تھا ۔ حکومت مخالف کسی بھی شخص کو ٹھیکہ الاٹ کرنا ممنوع بن گیا تھا ۔ ملی ٹنسی کا دور شروع ہوا تو سیاسی کارکنوں نے تمام سرگرمیوں سے ہاتھ کھینچ لیا اور خاموش ہوکر گھر بیٹھ گئے ۔ اس دوران ملی ٹنٹوں کے پسندیدہ افراد سامنے آئے اور ایسی سرگرمیاں انجام دینے لگے ۔ بلکہ بیشتر سرنڈر کرنے والے ملی ٹنٹوں نے ٹھیکہ داری کے کارڈ حاصل کرلئے ۔ حکومت اور دوسری ایجنسیوں نے بھی اس چیز کو غنیمت جان لیا کہ ایسے افراد واپس ملی ٹنسی جوئن کرنے کے بجائے سرکاری سرگرمیوں کا حصہ بن رہے ہیں ۔ ان عناصر کو آگے بڑھانے کی حمایت کی گئی اور سیاسی حلقوں کی طرف سے اعلانیہ ایسے عناصر کی مدد کرنا شروع کی ۔ اگرچہ عوامی حلقوں میں اس کو پسند نہیں کیا گیا ۔ سرکاری مراعات کا فائدہ اٹھانے والے ایسے افراد کے خلاف عام لوگوں میں نفرت بڑھنے لگی ۔ ان کے حوالے سے کہا جانے لگا کہ عام لوگوں کے بچوں کے ہاتھوں میں بندوق دے کر خود سرکار سے فائدے اٹھارہے ہیں ۔ اس کے باوجود ایسے لوگ کسی نہ کسی طرح سرکاری حلقوں تک رسائی حاصل کرنے کے بعد وہ تمام فائدے سمیٹنے میں کامیاب ہوئے جو ایک وقت صرف این سی اور کانگریسی کارکنوں کے لئے مخصوص سمجھے جاتے تھے ۔ ان کا یہ طریقہ کار صحیح تھا یا غلط اس پر بحث مقصود نہیں ۔ تاہم موجودہ انتظامیہ نے ایسے عناصر کی سرگرمیوں کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے ۔ انصاف پسند اور انسانی حقوق کے علمبردار حلقے سرکار کے ان اقدامات کو پسند نہیں کرتے ہیں ۔ ان کا ماننا ہے کہ بندوق چھوڑ کر واپس مین اسٹریم میں آنے والے افراد کو شریف شہریوں کی طرح زندگی گزارنے اور سرکاری مراعات حاصل کرنے کا حق دیا جانا چاہئے ۔ لیکن موجودہ انتظامیہ اس حوالے سے سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ۔ ایسے کئی حلقوں کے خلاف کاروائی کے بعد ٹھیکہ داروں کو اس دائرے میں لانے کا فیصلہ لیا گیا ہے ۔
