سرکاری نوکریوں کے بجائے خود روزگار کمانے پر زور دیا جارہا ہے ۔ شرفا کی یہ خاص صفت بتائی جاتی ہے کہ یہ نوکری نہیں کرتے بلکہ دوسروں کو نوکریاں دیتے ہیں ۔ اعلیٰ طبقے کے لوگ دوسروں کے ماتحت کام کرنے کے بجائے اپنا روزگار آپ کماتے ہیں اور دوسروں کو روزی روٹی دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ وہی لوگ کامیاب بتائے جاتے ہیں جو دوسروں پر انحصار کرنے کے بجائے اپنی مدد آپ کریں ۔ سرکاری نوکریوں کو اب گئے گزرے زمانے کی بات سمجھا جاتا ہے ۔ اب خود روزگار کمانے کا رجحان بڑھ رہاہے ۔ جدید دنیا میں یہی بات رواج پارہی ہے ۔ جموں کشمیر میں ایسی کوئی روایت نہیں پائی جاتی ہے ۔ پچھلے کچھ عرصے سے اس طرف توجہ دی جانے لگی ہے ۔ سرکاری نوکریاں مفقود ہونے کے بعد کئی نوجوانوں نے خود روزگار اسکیموں کا آغاز کیا ۔ ان میں سے بہت سے نوجوانوں کے کامیاب ہونے کا چرچا کیا جارہاہے ۔ بلکہ کئی خواتین کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنا روزگار آپ کمانے کی کوشش کی تو کافی حد تک کامیاب رہیں ۔ تازہ ترین حوالہ یہ ہے کہ کچھ لڑکیوں نے کشمیری وازہ وان فراہم کرنے کی مہم شروع کی ہے ۔ کل تک یہ شعبہ صرف مردوں کے لئے مخصوص سمجھا جاتا تھا ۔ پہلی بار بعض خواتین نے اس طرف توجہ دی اور وازہ وان کے ذریعے روزگار کمانے کی کوشش کی ۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مستعد طریقے سے لوگوں کو سامان فراہم کررہی ہیں ۔ یہ ایک نیا تجربہ ہے ۔ اس حوالے سے امید کی جارہی ہے کہ لڑکیوں کے لئے یہ شعبہ بھی منافعے کا باعث بنے گا ۔ خود روزگار کی ایسی اسکیموں کے حوالے سے ایل جی کا کہنا ہے کہ خواتین کو با اختیار بنانے میں مدد گار ثابت ہورہی ہیں ۔ خواتین وک کل تک مردوں پر انحصار کرنا پڑتا تھا ۔ لیکن اب مرد ان پر انحصار کرنے لگے ہیں ۔ اس وجہ سے خود روزگار اسکیموں کو آہستہ آہستہ فروغ مل رہاہے ۔
موجودہ مرکزی سرکار اس بات پر زور دے رہی ہے کہ نوجوانوں کو سرکاری نوکریوں کے بجائے اپنا روزگار آپ کمانے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ اس پر اگرچہ سرکار کی بڑے پیمانے پر تنقید کی جارہی ہے ۔ اس کے باوجود سرکار زور دے رہی ہے کہ لوگوں کو خود روزگار کمانے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ تمام مخالفت کو نظر انداز کرتے ہوئے سرکار کی کوشش ہے کہ پرائیویٹ نوکریوں کے علاوہ خود روزگار کمانے کی سوچ کو فروغ دیا جائے ۔ اپوزیشن اس بات کا چرچا کررہی ہے کہ نوجوانوں کو نوکریاں فراہم نہ کرنے کی وجہ سے ملک میں بے روزگاری اور غربت بڑھ رہی ہے ۔ عام لوگ بھی یہی سوچ رہے ہیں کہ سرکار انہیں روزگار فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے ۔ اس ایشو کو سرکار کو گھیرنے کا محرک بننے کا بھی خدشہ ہے ۔ اس کے باوجود سرکار اپنی اس پالیسی پر کاربند ہے کہ سرکاری نوکریوں کے بجائے نج کاری کو فروغ دیا جائے ۔ نوجوانوں کو پرائیویٹ سیکٹر میں کام کرنے کے لئے آمادہ کیا جائے ۔ نج کاری کی اس مہم کو ملک فروخت کرنے اور نوجوانوں کے ساتھ زیادتی کا نام دیا جاتا ہے ۔ لیکن سرکار اس طرف توجہ دینے کے لئے تیار نہیں ۔ یہاں تک کہ جموں کشمیر میں بھی پرائیویٹ سیکٹر کو فروغ دینے اور خودروزگاری ا سکیموں کو اپنانے پر زور دیا جارہاہے ۔ جموں کشمیر اس وقت بے روزگاری کے حوالے سے پورے ملک میں پہلے یا دوسرے نمبر پر ہے ۔ اس کے باوجود لوگوں کو سرکاری نوکریوں کے بجائے اپنا روزگار آپ کمانے پر زور دیا جاتا ہے ۔ اس کے لئے سرکار کی طرف سے امداد بھی فراہم کی جارہی ہے ۔ سرکاری کوششوں کے باوجود اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ اس طرح کی ا سکیمیں آگے بڑھ پائیں گی ۔ یہاں مسئلہ مارکیٹ کا ہے ۔ نوجوان جو مال تیار کرتے ہیں اس کے لئے خریدار تلاش کرنے کا سنگین مسئلہ درپیش ہے ۔ کچھ ہی سال پہلے کشمیر میں فشریز فارمنگ کو بڑے پیمانے پر فروغ ملا ۔ اس کے لئے بنیادی ضرورت کی تمام چیزیں مہیا ہونے کی وجہ سے مختلف علاقوں میں مچھلیاں تیار کرنے کے فارم بنائے گئے ۔ اس میں بھی یہی مسئلہ درپیش رہا کہ مچھلیوں کے لئے اپنے ہی آس پاس کے علاقوں میںخریدار تلاش کرنا پڑے ۔ بہ ظاہر یہ ایک کامیاب کاروبار ہے ۔ لیکن اس کو باضابطہ روزگار کی شکل حاصل نہ ہوسکی ۔ اس سے پہلے مرغ بانی کا وسیلہ نوجوانوں نے اپنایا ۔ لیکن زیادہ آگے نہ بڑھ سکا ۔ اسی طرح مشروم تیار کرنے کی کوشش کی گئی ۔ آج بھی کئی علاقوں میں مشروم بڑے پیمانے پر تیار کئے جاتے ہیں ۔ لیکن مارکیٹ بارھمولہ سے قاضی گنڈ تک محدود ہے ۔ یہ بات واضح ہے کہ اب سیب جیسی مضبوط میوہ صنعت بھی لڑکھڑا رہی ہے ۔ یہ صنعت پوری طرح سے گھاٹے کا کاروبار بن گئی ہے ۔ اس صنعت کو مبینہ طور بڑی سازش سے خسارے کا کاروبار بنادیا گیا ۔ ادویات فراہم کرنے والی کمپنیاں منظم طریقے سے پیسے بٹور رہی ہیں ۔ لیکن کاشتکار پوری طرح سے کنگال ہوکر رہ گئے ہیں ۔ لڑکیوں کا آشپاز بننا بڑی حوصلہ افزا بات ہے ۔ سب باتیں اپنی جگہ ۔ لیکن محدود دائرے کے اندر کاروبار کامیاب کاروبار قرار نہیں دیا جاسکتا ہے ۔ اس کا تو چرچا ہوسکتا ہے ۔ لیکن یہ آمدنی اور آگے بڑھنے کا کوئی مضبوط وسیلہ قرار نہیں دیا جاسکتا ہے ۔
