منگل وار رات کے پہلے پہر زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کئے گئے ۔ اس سے سخت خوف و ہراس پیدا ہوگیا اور لوگ گھروں سے باہر سڑکوں پر نکل آئے ۔ ہر طرف چیخ و پکار کرتے بچے بوڑھے خاص کر خواتین نظر آئیں ۔ زلزلے سے موبائیل فون سروس متاثر ہوئی اور مکانات کے اندر لٹکے رہنے والی اشیا جھولتی نظر آئیں ۔ اگرچہ زلزلے کا مرکز مبینہ طور افغانستان میں ہندو کش پہاڑی علاقہ تھا اور اثرات زیادہ تر آس پاس کے علاقوں میں محسوس کئے گئے ۔ تاہم جموں کشمیر میں بھی اس وجہ سے شدید بے چینی پائی گئی ۔ اس سے زیادہ شدید زلزلہ 2005 میں آیا تھا جس سے جنوبی کشمیر میں سخت جانی و مالی نقصان ہوا ۔ اس کا خوف تاحال لوگوں میں موجود ہے ۔ چند ہگتے پہلے اسی طرح کا زلزلہ ترکیے اور شام میں بھی آیا جس سے وہاں بڑے پیمانے پر مالی اور جانی نقصان ہوا ۔ آج کے زلزلے سے جموں کشمیر میں کہیں سے بھی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ہے ۔ تاہم کئی عمارات میں دراڑیں پیدا ہونے کی اطلاع ہے ۔ البتہ لوگوں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے ۔
زلزلے ایک ایسا عمل ہے جس پر انسان ابھی قابو پانے میں ناکام رہاہے ۔ بلکہ اس کی پیشگی اطلاع دینے کا کوئی آلہ بھی تاحال تیار نہیں کیا جاسکا ہے ۔ تاہم ان علاقوں کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں کسی بھی وقت زلزلہ آنے اور بڑے پیمانے پر نقصان ہونے کا اندیشہ ہے ۔ جموں کشمیر ان علاقوں میں شامل ہے جہاں شدید زلزلہ آنے کا خطرہ ہے ۔ یہ علاقہ ایسی پٹی میں موجود ہے جو زلزلے کے لئے بہت ہی حساس پٹی مانی جاتی ہے ۔ اس لحاظ سے یہاں زلزلہ آنا یا زلزلے کے جھٹکے وقت بے وقت محسوس کرنا کوئی عجیب بات نہیں ہے ۔ بلکہ عجیب تر معاملہ یہ ہے کہ لوگ زلزلے کے لئے تیاریاں کرنے کے معاملے میں انتہائی بے حس پائے گئے ہیں ۔ ماہرین کی طرف سے بار بار توجہ دلانے کے باوجود لوگ سنی ان سنی کرتے ہیں اور اسے بعض لوگوں کا وہم قرار دیتے ہیں ۔ اس طرح سے زلزلے کے لئے تیاریوں کو نظر انداز کرنے شدید خطرے کا الارم ماناجاتا ہے ۔ لوگ بڑے بڑے مکانات اور حویلیاں تعمیر کرتے ہیں ۔ مکانات پر اپنی جمع پونجی کا بڑا حصہ خرچ کرتے ہیں ۔ بلکہ کئی لوگ مکانات پر اپنا سارا سرمایہ خرچ کرتے ہیں ۔ لیکن اس بات سے پوری لاپرواہی کرتے ہیں کہ زلزلے کے ایک جھٹکے سے سب کچھ تباہ و برباد ہوسکتا ہے ۔ بلکہ ایسی صورت میں اہل و عیال سمیت ہلاک ہونے کا بھی احتمال ہے ۔ زلزلے سے جو بھی نقصان ہوتا ہے وہ اسی وجہ سے ہے کہ عمارات زلزلے سے محفوظ نہیں بنائی جاتی ہیں ۔ کوئی عمارت تعمیر کرکے اس کو زلزلہ سے محفوظ بنانا مشکل ہے ۔ البتہ تعمیر کے دوران معمولی کوشش سے یہ کام انجام دیا جاسکتا ہے ۔ ایک زمانے میں کشمیر میں ایسی عمارات تعمیر کی جاتی تھیں جو آگ سے محفوظ تھیں نہ مسلسل بارشوں کا مقابلہ کرپاتی تھیں ۔ اس وجہ سے آئے دن رہائشی مکانات آگ کی نظر ہوجاتے تھے ۔ اسی طرح چند گھنٹوں یا دنوں کی مسلسل بارش سے مکانات گر جاتے تھے ۔ لیکن آج ایسی صورتحال نہیں ہے ۔ کنکریٹ مکانات آگ سے محفوظ ہیں اور بارشوں سے ان کے گرجانے کا بھی کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ اب آگ لگنے سے کوئی مکان جل جائے ایسا ممکن ہے ۔ لیکن پوری بستیاں آگ سے خاکستر ہوجائیں ناممکن بات ہے ۔ اسی طرح مکانوں میں بارشوں سے زیادہ نقصان نہیں ہوتا ۔ اس کے برعکس زلزلے سے مکانوں کے گرجانے اور لوگوں کے بڑے پیمانے پر ہلاک ہونے کا خطر ہروقت موجود ہے ۔ کل کا زلزلہ تھوڑا زیادہ ہوتا تو یقینی طور بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان ہوتا ۔ ترکیے میں ہوئے حالیہ نقصان کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ تعمیرات کو سرکار کی طرف سے مقرر کئے گئے معیار کے مطابق نہیں بنایا گیا تھا ۔ زلزلے کے فوراََ بعد کئی درجن ان ٹھیکہ داروں کو گرفتار کیا گیا جنہوں نے ایسی عمارات تعمیر کی تھیں جو زلزلے کے جھٹکے سہنے میں ناکام رہیں ۔ ان کے خلاف قانونی کاروائی کرنے کا اعلان کیا گیا ۔ جموں کشمیر یہ بات سرے سے مفقود ہے کہ کوئی عمارت تعمیر کرنے سے پہلے اس کے زلزلے کے حوالے سے جانچ کی جائے ۔ بلکہ سرکار کے پاس بھی ایسی کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے جس کے تحت تعمیرات کھڑا کرنے سے پہلے ان کے زلزلے کے حوالے سے جانچ کرانا ضروری ہو ۔ سرکار تو اپنی عمارات پورے احتیاط سے تیار کرتی ہے ۔ بلکہ اس معاملے میں ماہرین کی رائے کا احترام کیا جاتا ہے ۔ اس کے بجائے عام لوگوں کو ایسا کرنے کا تابع نہیں بنایا جاتا ہے ۔ اس دوران جو رہائشی مکانات بنائے جاتے ہیں وہ کسی طور زلزلے کے جھٹکے برداشت کرنے کے قابل نہیں ۔ اگر یہاں کسی دن ایسی مصیبت کا سامنا کرنا پڑا تو خدشہ ہے کہ بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوگا ۔ زلزلے کے خطرات سے دوچار علاقے میں موجود ہونے کے تناظر میں حکومت کو اس حوالے سے قوانین تیار کرکے ان پر عمل کرانا ضروری ہے ۔
