گرمی کا موسم شروع ہوتے ہی باغوں میں کام شروع ہوگیا ۔ ماہرین کے مشوروں کے مطابق باغ مالکان بڑے پیمانے پر باغوں میںادویات کا چھڑکائو کررہے ہیں ۔ خاص طور سے سیب کے باغات اور فصل کو بیماریوں سے بچانے کے لئے ہر ہفتے دو ہفتے ادویات کا چھڑکائو کیا جارہا ہے ۔ اس حوالے سے کہا جارہا ہے کہ بیماریوں کیا ثرات شروع ہونے سے پہلے جراثیم کش ادویات نہ چھڑکے جائیں تو فصل کے متاثر ہونے کا خطرہ ہے ۔ ان خدشات سے بچائو کے لئے مختلف اقسام کی ادویات کا استعمال کیا جارہاہے ۔ پچھلے کچھ سالوں کے دوران بڑے پیمانے پر سکیب اور اس طرح کی دوسری بیماریوں نے باغات کو متاثر کیا ۔ اس کے بعد سے باغوں میں جراثیم کش ادویات کا کافی استعمال کیا جاتا ہے ۔ ادویات فراہم کرنے والے کسانوں کی اس ضرورت کا خوب فائدہ اٹھاتے ہیں اور بڑے پیمانے پر استحصال کررہے ہیں ۔ باغ مالکان کا الزام ہے کہ بیشتر ادویات جعلی ہوتی ہیں اور فصل کا بچائو کرنے کے بجائے اسے نقصان پہنچانے کا باعث بنتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ان ادویات کا کوئی ریٹ مقرر نہیں ہے ۔ ادویات فروخت کرنے والے من مانی قیمت وصول کرتے ہیں ۔ اس طرح سے بڑے پیمانے پر لوٹ کھسوٹ کیا جاتا ہے ۔
ادویات کا استعمال بڑھنے کے نتیجے میں ادویات فراہم کرنے کے کاروبار کو کافی فروغ مل گیا ۔ بلکہ اس نے ایک وسیع انڈسٹری کا روپ اختیار کیا ہے ۔ اگرچہ ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ باغات میں ادویات اور کھادوں کا استعمال کم سے کم کیا جائے ۔ ان کا مشورہ ہے کہ قدرتی وسائل استعمال کرکے زمین کو ذرخیز بنایا جائے اور بیماریوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جائے ۔ لیکن ایسے مشوروں پر عمل نہیں ہورہا ہے ۔ لوگ بڑے پیمانے پر کیمیائی کھادوں اور جراثیم کش ادویات کا استعمال کررہے ہیں ۔ اس ضرورت کو دیکھ کر بہت سے لوگ یہ چیزیں فراہم کرنے کے لئے بازار میں آگئے ۔ اب شہر سے نکل کر ہر گائوں اور ہر محلے میں ادویات فروش نظر آتے ہیں ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ بیشتر باغ مالکان خاص کر غریب کسان کھاد اور ادویات قرضے پر لے کر فصل کی قیمت وصول ہونے کے بعد ادائیگی کرتے ہیں ۔ اس کا فائدہ اٹھاکر دکاندار انہیں اپنی پسند کی دوا اپنی خواہش کی قیمت پر فراہم کرتے ہیں ۔ اس کا کوئی بل بنتا ہے نہ قیمت یا کوالٹی کے حوالے سے کوئی سوال اٹھایا جاتا ہے ۔ غریب کسان قرضے پر ادویات لینے پر مجبور ہے ۔ دکاندار اس مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے من پسند ریٹ کھاتے میں درج کرتا ہے ۔ سال کے آخر پر قرضے کی وصولیابی دکاندار کے کھاتے کے مطابق ہوتی ہے ۔ اس دوران یہ بات عیاں ہے کہ ادویات فراہم کرنے والے بڑے پیمانے پر کسانوں کا استحصال کرتے ہیں ۔ دیکھا گیا ہے کہ ایسی چیزوں کی مارکیٹ پر سرے سے کوئی کنٹرول نہیں ہے ۔ ایک ہی قسم کی کھاد یا ادویات کی مختلف ریٹ بتائی جاتی ہے ۔ جواز یہ فراہم کیا جاتا ہے کہ کم قیمت پر ملنے والی چیز معیاری نہیں ہے ۔ کسی چیز کو کیسے کم معیار یا اعلیٰ معیار کا مان لیا جائے اس کے لئے کوئی اسکیل نہیں ہے ۔ کسان کے لئے یہ فیصلہ کرنا ممکن نہیں کہ کون سی کھادی معیاری اور کون سی غیر معیاری ہے ۔ نہ اس کا کوئی پیمانہ ہے کہ ادویات نقلی ہیں یا اصلی ۔ اب قیمت سے معیار کا اندازہ لگایا جاتا ہے ۔ اس کا جو نتیجہ نکلنا ہے واضح ہے ۔ دکاندار کسی بھی چیز کو معیاری قرار دے کر اس کی قیمت اپنی مرضی سے مقرر کرسکتا ہے ۔ اب بات یہاں تک پہنچی ہے کہ ادویات پر آنے والی لاگت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ فصل کی اتنی قیمت وصول نہیں ہوتی ۔ باغوں کا کام اب گھاٹے کا سودا ثابت ہورہا ہے ۔ یقینی طور اس کی کئی وجوہات ہیں ۔ ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ لاگت اتنی زیادہ ہوگئی کہ فصل کی قیمت بہت کم وصول ہوتی ہے ۔ کئی کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنا قرضہ چکانے کے اہل نہیں ہوتے ۔ اس بات سے باخبر ہونے کے باوجود کہ فصل کی قیمت لاگت سے کم وصول ہوگی ۔ کسان درختوں کو بیماروں کے اثرات سے بچانے کے لئے ادویات کے چھڑکائو پر مجبور ہورہے ہیں ۔ ادویات کا استعمال ترک کرنا ان کے بس میں نہیں ۔ ایسی صورت میں باغوں پر کی گئی کئی سالوں کی محنت ضایع ہوسکتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کسان باغوں کی دیکھ ریکھ اور ادویات کے چھڑکائو پر مجبور ہیں۔ اس ذریعے سے کسانوں کا جو لوٹ کھسوٹ ہورہاہے اس کو روکنا ضروری ہے ۔ یہ کسانوں کے بس کی بات نہیں ۔ بلکہ انتظامیہ کو اس طرف توجہ دینا چاہئے ۔ اس بات سے انکار نہیں کہ حکومت ہر دکاندار پر ہرکارے مقرر نہیں کرسکتی ۔ یہاں کا کاروباری طبقہ کسی بھی قانون یا دبائو کو ماننے کے لئے تیار نہیں ۔ کوئی بھی تاجر سرکاری ریٹ ماننے پر آمادہ نہیں ۔ یہی صورتحال جراثیم کش ادویات فروخت کرنے والوں کی بھی ہے ۔ ان پر قدغن لگانا مشکل ہے ۔ تاہم مختلف ادویات کی کوالٹیا ور ریٹ کو مشتہر کرکے کسی حد تک کسانوں کو راحت پہنچائی جاسکتی ہے ۔ ورنہ موجودہ صورتحال غریب کسانوں کو لے ڈوبے گی ۔
