شمالی کشمیر کے سوپور علاقے میں بیٹے کے ہاتھوں ماں کے قتل کے بعد منشیات کا پھیلائو پھر موضوع بحث بن گیا ہے ۔ یہاں کے عوام کا کہنا ہے کہ اپنی ماں کا قاتل اصل میں منشیات کا عادی ہے اور ان ہی اثرات کے تحت اس نے قتل کی یہ واردات انجام دی ۔ اس حوالے سے علاقے کے معزز شہریوں کا کہنا ہے کہ قاتل اکیلا اس وبا کا شکار نہیں بلکہ درجنوں جوان نشہ آور اشیا کے استعمال کرتے ہیں ۔ یہاں کئی لوگوں نے اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے منشیات کے عادی جوانوں کے ہاتھوں انجام پانے والے جرائم کی نشاندہی کی ۔ انہوں نے الزام لگایا کہ والدین اس معاملے میں تساہل سے کام لیتے ہیں ۔ اس وجہ سے نوجوان بڑی تعداد میں نشے کے عادی بن رہے ہیں ۔ یہاں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ لڑکوں کے علاوہ کئی لڑکیاں بھی اس عادت میں ملوث ہورہی ہیں ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ معاشرے میں منشیات کی وبا کس قدر تیزی سے پھیل رہی ہے ۔ بہت سے سنجیدہ لوگ چاہتے ہیں کہ اس وبا کو جڑ سے اکھاڑا جائے ۔ لیکن کوئی رول ادا کرنے سے قاصر ہیں ۔
جموں کشمیر کی انتظامیہ کی طرف سے کئی بار خبردار کیا گیا کہ منشیات کا استعمال اور تجارت ایک وبائی صورتحال اختیار کررہا ہے ۔ نوجوان بڑے پیمانے پر اس کاروبار میں شامل ہورہے ہیں ۔ تازہ ترین اطلاع یہ ہے کہ دس لاکھ کے قریب نوجوان باضابطہ نشہ آور اشیا کا استعمال کررہے ہیں ۔ پولیس نے پچھلے ایک سال سے منشیات کے پھیلائو کے خلاف منظم مہم شروع کی ہوئی ہے ۔ بلکہ جب سے وزیر اعظم مودی نے نشہ مکت بھارت کا نعرہ دیا انتظامیہ اس حوالے سے بڑی متحرک دکھائی دیتی ہے ۔ جموں کشمیر کی انتظامیہ نے وزیراعظم کے اعلان کے تناظر میں نشہ مکت کشمیر مہم کا اعلان کیا ۔ اس مہم کے تحت کئی درجن اسگلروں کے علاوہ سینکڑوں ایسے نوجوانوں کو حراست میں لیا گیا جو نشے کے عادی بتائے جاتے ہیں ۔ ان نوجوانوں کو نصیحت کے ذریعے یا ڈرگ ڈی ایکٹ سنٹروں میں علاج معالجے کے بعد اپنے گھر والوں کے حوالے کیا گیا ۔ انتظامیہ اور پولیس کی طرف سے مختلف جگہوں پر جانکاری کیمپوں کا انعقاد کیا گیا ۔ بڑے پیمانے پر لوگوں کو منشیات کے حوالے سے جانکاری دینے کے علاوہ انہیں اپنی اولاد پر اس حوالے سے نظر گزر رکھنے کی ہدایت کی گئی ۔ لیکن یہ وبا کم ہونے کے بجائے بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے ۔ اس دوران کئی نوجوان حد سے زیادہ نشہ آور اشیا استعمال کرنے کی وجہ سے موت کا شکار ہوگئے ۔ والدین سے کہا گیا کہ اپنی اولاد کی بہتر زندگی کے لئے ضروری ہے کہ انہیں نشہ آور اشیا سے دور رکھا جائے ۔ لیکن اس وبا پر مکمل طور قابو پانا ممکن نہیں ہورہاہے ۔ یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ کشمیر میں منشیات کے پھیلائو کے لئے کئی وجوہات بتائی جاتی ہیں ۔ خاص طور سے ذہنی تنائو کو اس کا بڑا سبب بتایا جاتا ہے ۔ غیر موذون حالات کے اندر ذہنی تنائو کا شکار ہونے کے بعد نوجوان نشے کی طرف منتقل ہوجاتے ہیں ۔ اسی طرح بے کاری اور بے روزگاری کی وجہ سے بھی نوجوان ذہنی تنائو سے دوچار ہیں ۔ کئی لوگ گھریلو مسائل کی وجہ سے بھی سخت تنائو میں ہیں ۔ ایسے کئی وجوہات ہیں جن کے اثر کے تحت بہت سے لوگ ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں ۔ اس کے بعد ان کا خیال ہے کہ ذہنی تنائو دور کرنے کے لئے یہ ایک مناسب ذریعہ ہے ۔ حالانکہ ایسا نہیں ۔ اس سے ذہنی تنائو دور ہونے کے بجائے بڑھ جاتا ہے ۔ ایسے موقعوں پر اس قسم کے مریضوں کی مدد اور رہنمائی کرنے کی ضرورت ہے ۔ بہت سے سرکاری اور غیر سرکاری ادارے یہ کام انجام دیتے ہیں ۔ لیکن ان کا دائرہ کار محدود ہے ۔ غیرسرکاری تنظیمیں ان گائوں دیہات تک نہیں پہنچتی جہاں اس حوالے سے بنیادی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جانکاری کیمپ منعقد کرنے کے ساتھ اس حوالے سے باضابطہ شعبے قائم کرنے کی ضرورت ہے ۔ کالج اور یونیورسٹیاں ڈرگس کا بڑا مرکز بنی ہوئی ہیں ۔ اس طرح کا ناجائز کام یہاں زیر تعلیم طلبا میں بڑی آسانی سے انجام پاتا ہے ۔ ڈرگس کا روبار کرنے والوں کے لئے یہی تعلیمی ادارے آسان ہدف بنے ہوئے ہیں ۔ اس بات سے انتظامیہ پوری طرح سے باخبر ہے ۔ یہاں گاہے گاہے اس حوالے سے اجلاس منعقد کئے جاتے ہیں ۔ تاہم یہ کام کافی نہیں ہے ۔ اس کے لئے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ سماج کو پوری یک سوئی اور یک جہتی کے ساتھ اس معاملے میں ایکٹیو رول ادا کرنا ہوگا ۔ سوپر سے پہلے عیش مقام میں منشیات کے عادی نوجوان کے ہاتھوں لرزہ خیز واردات انجام پائی ۔ اس وقت بھی نشے کے حوالے سے کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ۔ اب سوپور واقعے کے تناظر میں یہ ایک بار پھر بحث کا موضوع بنا ہوا ہے ۔ ایسے واقعات انجام پانے سے پہلے اس حوالے سے وسیع پیمانے پر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ سماجی اداروں کو منظم ہوکر مہم میں شامل ہونا ہوگا ۔ جب ہی کوئی موثر کام انجام دیا جاسکتا ہے ۔
