پچھلے کئی دنوں سے ایک بار پھر کورونا متاثرین کی تعداد بڑھنے لگی ہے ۔ پورے ملک میں وائرس سے کئی ہزار افراد کے متاثر ہونے کی اطلاع ہے ۔ اس دوران معلوم ہوا ہے کہ جموں کشمیر میں ایسے مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے ۔ شہری علاقوں کے علاوہ دیہاتوں سے بھی اطلاع ہے کہ زکام اور چھاتی کے درد میں اچانک پھیلائو ہورہاہے ۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ موسم کی تبدیلی کی وجہ سے ایسا ہورہاہے ۔ ادھر ماہرین فلیو کا خدشہ ظاہر کررہے ۔ بعض ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ کئی اقسام کے پھول کھلنے سے ایسا انفکشن اکثر دیکھنے کو ملتا ہے ۔ تاہم یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ کورونا متاثرین میں دن بہ دن اضافہ ہورہاہے ۔ جمعرات کو تین درجن کے قریب ایسے مثبت کیس سامنے آئے ہیں ۔ کئی سو لوگوں کی جانچ کرنے کے بعد پتہ چلا کہ 59 افراد کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے ۔ جموں سے یہ تشویش ناک خبر سامنے آئی ہے کہ ایک متاثرہ شخص کی موت واقع ہوئی ہے ۔ 9 ماہ کے بعد کسی کورونا متاثر کی موت کا یہ پہلا واقع ہے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ کورونا نے ایک بار پھر جموں کشمیر میں اپنے پنجے پھیلائے ہیں اور لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کیا ہے ۔ کئی کووڈمریض اس دوران صحت یاب بھی ہوئے ہیں ۔ تاہم لوگ جس قدر تکلیف محسوس کررہے ہیں اس سے اندازہ ہورہاہے کہ ایک بار پھر مشکلات کا سامنا ہوگا ۔
کورونا وائرس کے مکمل ختم ہونے کی کسی نے بات نہیں کی ۔ لاک ڈاون اٹھانے اور ماسک چھوڑنے کے بعد بھی ماہرین نے کبھی یہ خیال ظاہر نہیں کیا کہ کورونا وائرس کا مکمل خاتمہ ہوچکا ہے ۔ کسی بھی وائرس کے بارے میں یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ اس کو پوری طرح سے قابو میں کیا گیا اور اب اس کے ظاہر ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے ۔ خاص طور سے کورونا کے بارے میں بار بار خبردار کیا جاتا رہا کہ یہ ابھی اپنی شکل و ہیئت تبدیل کرنے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے ۔ اس وجہ سے اس کو کنٹرول کرنا ممکن نہیں ۔ تاہم لوگوں نے اس کے ساتھ جینے کا فیصلہ کرلیا ۔ سرکار اور عوام نے مشترکہ طور یہ سوچ بنالی کی ساری زندگی کورونا کے خوف کی وجہ سے گھر میں نہیں بیٹھا جاسکتا ہے ۔ کورونا وائرس سے بچائو کے لئے ملکی سائنس دانوں نے بروقت ویکسین تلاش کیا ۔ کئی طرح کے خدشات کے باوجود لوگوں نے ویکیسن لگانے پر رضامندی ظاہر کی ۔ اس کے بعد بہت حد تک صورتحال میں تبدیلی آگئی ۔ تاہم وائرس کے موجود ہونے سے کبھی بھی انکار نہیں کیا گیا ۔ اس دوران روزمرہ کا کام کاج شروع ہوگیا اور زندگی معمول پر آنے لگی ۔ سرکاری سرگرمیوں کے علاوہ عوام بھی اپنی مصروفیات میں لگ گئے ۔ اس وجہ سے کورونا خوف بھی چلا گیا اور احتیاطی تدابیر بھی بھول گئیں ۔ اب کئی روز سے ایک بار پھر لوگوں میں اس حوالے سے فکرمندی بڑھنے لگی ہے ۔ یہ بات بڑی خوش آئند ہے کہ لوگوں نے کسی خوف یا ڈر کا اظہار نہیں کیا ۔ ابتدائی مرحلے پر جو صورتحال بنی تھی اور لوگ اسے موت کا الارم خیال کرتے تھے ۔ یہاں تک کہ ڈاکٹر بھی ایسے مریضوں سے خوف زدہ رہتے تھے ۔ بہت سے ایسے مریض اس وجہ سے موت کا شکار ہوئے کہ ڈاکٹروں نے ان کے پاس آنے سے انکار کیا ۔ وہ زمانہ ہی ایسا تھا ۔ وبا کے حوالے سے جو تاثر پایا جاتا تھا اس نے عام لوگوں کے ساتھ ڈاکٹروںکو بھی خوف زدہ کیا ۔ عالمی سطح پر اس وجہ سے عجیب صورتحال بن گئی اور لوگ سخت خوف و ہراس کا شکار ہوگیا ۔ ایک نئی تاریخ بن گئی اور زندگی اچانک ہی ٹھپ ہوکر رہ گئی ۔ وہ ممالک جن کا ایک سیکنڈ کے لئے کاروبار معطل کرنا ممکن نظر نہیں آتا تھا سارا کاروبار بدن کرکے بیٹھ گئے ۔ آج ہرگز بھی ویسی صورتحال نہیں ہے ۔ مریض زندگی کی امید چھوڑنے کے بجائے اس کا علاج کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ بلکہ احتیاط سے کام لے کر ضروری طبی ہدایات پر عمل کرتے ہیں ۔ اس ذریعے سے بیشتر مریض صحت یاب ہوتے ہیں ۔ بلکہ بہت کم مریض ہلاک ہوجاتے ہیں ۔ البتہ یہ بات بڑی عجیب ہے کہ اب بھی لوگ سرکاری اقدامات کا انتظار کررہے ہیں اور ان ہدایات کو اپنانے سے گریز کرتے ہیں جن کی تشہیر پہلے ہی کی گئی ہے ۔ لوگوں سے یہ بات زور دے کر کہی جاتی ہے کہ ایسے موقعوں پر پوری احتیاط سے کام لیں ۔ صفائی اور دوسرے ضروری احتیاطی تدابیر کو اپنایا جائے تو کورونا کو اپنے سے دور رکھنا مشکل نہیں ہے ۔ خاص طور سے عمر رسیدہ لوگوں اور چھاتی کے کچھ امراض میں ملوث لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ بھیڑ بھاڑ والی جگہوں سے دور رہیں ۔ گھر سے نکلتے وقت ماسک کا استعمال کریں ۔ سخت ضرورت کے بغیر گھروں سے نکلنے سے اجتناب کریں ۔ ایسے بڑے بوڑھوں کے لئے اگرچہ دوسروں کی رفاقت میں رہنا بہت ضروری ہے ۔ ذہنی تنائو سے بچائو کے لئے باہمی میل جول ضروری ہے ۔ البتہ ایسا کرتے ہوئے موذون دوری اور ماسک پہن کر ہی کام لیا جائے ۔ احتیاط ادویات سے بچنے کا آسان اور مناسب ذریع ہے ۔ اس کے لئے خود بھی اعتدال سے کام کے بہت سی پریشانیوں سے بچا جاسکتا ہے ۔ جان جوکھم میں ڈالنے سے پرہیز کیا جائے ۔ جب ہی کورونا کے گھیرائو میں آنے سے بچا جاسکتا ہے ۔
