سرینگر کے مضافات میں منگل کو پولیس نے جسم فروشی کا ایک اور اڈہ بے نقاب کرنے کا دعویٰ کیا ۔ یہ پچھلے چند روز کے اندر اپنی نوعیت کا دوسرا واقع ہے ۔ اس سے پہلے باغ مہتاب میں اسی طرح کا ایک اڈہ بے نقاب کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا ۔ چند ہفتوں کے دوران سرینگر میں جسم فروشی کے دو اڑے بے نقاب کئے گئے ۔ اس سے عوامی حلقوں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے ۔ باغ مہتاب میں جس ریکٹ کا پردہ فاش کیا گیا تھا اس کے بارے میں معلوم ہوا کہ پلوامہ ضلع سے تعلق رکھنے والے دو شخص کرایہ کے ایک مکان میں یہ کاروبار چلاتے تھے ۔ اب نوگام علاقے میں جو فحاشی کا اڈہ پایا گیا اس بارے میں کہا گیا کہ وہاں سے میاں بیوی کے علاوہ کئی گاہک بھی پکڑے گئے ۔ یہ بڑی بے حیائی کی بات ہے کہ کوئی شخص اپنی بیوی کو ملوث کرکے اس طرح کے ناجائز کاروبار میں ملوث رہاہے ۔ ایسی مثالیں بہت کم ملتی ہیں کہ کوئی مرد اپنی بیوی کو چکلہ چلانے کے دھندے میںملوث کرنے پر آمادہ ہو ۔ یہ بے حیائی ہی نہیں بلکہ بے غیرتی کی اپنی مثال آپ سمجھی جاتی ہے ۔ یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ سرینگر میں فحاشی کا اس طرح کاریکٹ بے نقاب کیا گیا ۔ ایک نہیں بلکہ ایک کے بعد ایک ایسا اڈہ سامنے لایا گیا ۔ باغ مہتاب میں پکڑے گئے اڈے کے بعد خیال کیا جاسکتا ہے کہ اس طرح کے دوسرے اڈے خوف کی وجہ سے عارضی طور ہی سہی لیکن ضرور بند کئے گئے ہونگے ۔ لیکن سینہ زوری ایسی کہ نوگام میں اس طرح کا ناجائز کاروبار جاری رکھا گیا ۔ خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ سرینگر اور دوسرے علاقوں میں اس طرح کے مزید اڈے قائم ہونگے ۔
کئی مہینوں سے پولیس کشمیر کے طول وعرض میں منشیات سے منسلک افراد کو مسلسل گرفتار کررہی ہے ۔ منشیات کے اس کاروبار کے ڈانڈے ملی ٹنسی کے ساتھ جوڑے جاتے ہیں ۔ نارکو ملی ٹنسی ایک نئے اصطلاح سامنے آئی ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ منشیات کے اس کاروبار میں عورتوں کے ملوث ہونے کی بات کی جاتی ہے ۔ ایک زمانے میں عورتوں کا یو پی اور ممبئی میں ڈاکووں کے ساتھ کام کرنا بڑا عجیب سمجھا جاتا تھا ۔ ایسے قصے کہانیاں بڑی حیرانی کے ساتھ سنی جاتی تھیں ۔ لیکن پچھلے کچھ عرصے سے معلوم ہورہاہے کہ کشمیر میں بھی اس طرح کا ناسور تیزی سے پھیل رہاہے ۔ عورتوں کا منشیات کے کاروبار میں ملوث ہونا بڑی معیوب بات ہے ۔ اس کے باوجود یہاں کی خواتین اس کام کا حصہ بتائی جاتی ہیں ۔ بلکہ پولیس کا کہنا ہے کہ اب تک درجنوں ایسی خواتین کو گرفتار کیا گیا جو اس کاروبار کا حصہ رہی ہیں ۔ اس طرح کا تازہ واقع پٹن میں پیش آیا جہاں مبینہ طور دو نوجوانوں اور ایک عورت کو منشیات کے علاو ہ ملی ٹنٹوں کے ساتھ کام کرنے میں ملوث پایا گیا ۔ اسی طرح جنسی کاروبار میں عورتوں کے ملوث ہونے کے قصے سامنے آتے ہیں ۔ بلکہ یہ بات کسی اچنبھے سے کم نہیں کہ میاں بیوی اس کاروبار میں ملوث رہے ہیں ۔ سرینگر میں اس سے پہلے بھی اس طرح کے کئی ریکٹ بے نقاب کئے گئے جن میں عورتوں کا ہاتھ بتایا گیا تھا ۔ آج ایک بار پھر اسی طرح کی کہانی سامنے آگئی ۔ اس سے کشمیریوں کے سر شرم سے جھک گئے ہیں ۔ یقینی طور اس کاروبار میں ملوث لوگ زیادہ پریشان نہیں ہونگے ۔ ان کے لئے ایسے حادثے بڑے حادثے نہیں ہوتے ۔ اس طرح کے کاروبار میں ملوث لوگ پہلے ہی شرم وحیا سے عاری ہوتے ہیں ۔ اس کے علاو ہ انہوں نے اپنے طور بچائو تدابیر بھی کئے ہوتے ہیں ۔ کسی وجہ سے پولیس کے ہتھے چڑھ جانے کے باوجود انہیں یقین ہوتا ہے ک بچ نکلنے میں کامیاب ہونگے ۔ افسوس کی بات اگر ہے تو عام لوگوں کے لئے ۔ شرم وحیا کے پتلے ایسے واقعات سے بڑے مایوس ہوتے ہیں ۔ انہیں لگتا ہے کہ ایسے سماج میں ان کے رہنے کو کچھ بھی جگہ باقی نہیں بچی ہے ۔ اس طرح کے واقعات کسی سماج میں جنم لیتے ہیں تو آہستہ آہستہ پھیل کر شریف اور سادہ گھروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لیتے ہیں ۔ یہ آگ کی طرح ہے جو کہیں سے شروع ہوجائے تو آس پاس کے سارے گھروں کو اپنی لپیٹ میں لیتا ہے ۔ دیکھا گیا ہے کہ جرائم جب کسی معاشرے میں سر نکالتے ہیں تو پھر وہاں کوئی نہیں بچتا ہے ۔ ہر کوئی ان جرائم سے متاثر ہوتا ہے ۔ بلکہ سادے اور شریف لوگوں پر اس کے اثرات زیادہ سنگین ہوتے ہیں ۔ پولیس نے کسی حد تک اپنا کام انجام دیا ۔ لگتا ہے کہ اس کاروبار کو شروع ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے ۔ شروع کے مرحلے پر ہی پولیس نے اس کاروبار پر نکیل ڈال دی ہے ۔ ایسا ہو تو اسے قابو کرنا زیادہ مشکل نہیں ۔ ابھی اس کے زیادہ اثرات آگے نہیں بڑھے ہونگے ۔امید بس یہ ہے کہ پولیس سنجیدگی سے اس کے خلاف اقدام کرکے اس کا خاتمہ یقینی بنائے گی ۔ ہمارا سماج اس کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ اس طرح کی برائیوں کو پھیلنے دیا جائے ۔ یہ ہماری روایات اور احساسات کے خلاف ہے ۔ کشمیر میں جب بھی ایسی برائیاں سامنے آئی ہیں تو عوامی حلقوں نے ان کو جڑ سے ختم کرنے میں کوئی کسر نہیں رکھ چھوڑی ۔ آج عوام اس معاملے میں پولیس کے ساتھ ہیں ۔ امید ہے نتائج حوصلہ افزا ہونگے ۔
