پچھلے دو ہفتوں کے دوران کئی سرکاری محکموں نے مارکیٹ چیکنگ کی وسیع مہم چلائی تھی ۔ اس دوران دیکھا گیا کہ اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں کچھ حد تک اعتدال آگیا ۔ لیکن یہ مہم زیادہ دیر قائم نہ رہی اور جلد ہی اس کا زور ٹوٹ گیا ۔ عید سے پہلے کہا جاتا ہے کہ تاجروں نے قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ کیا ہے ۔ اس موقعے پر بکری میں بڑی حد تک اضافہ ہوتا ہے ۔ گاہکوں کی ضرورتوں کو دیکھ کر دکانداروں نے قیمتوں میں بے جا اضافہ کرنا شروع کیا ہے ۔ بچوں کی ملبوسات ، بیکری ، گوشت وغیر کی قیمتیں ایک بار پھر آسمان تک پہنچ چکی ہیں ۔ عام شہری الزام لگارہے ہیں کہ سرکاری اہلکاروں نے کچھ دنوں کے لئے دکھاوے کی مارکیٹ چیکنگ مہم چلائی اور اب عید کے نزدیک آتے ہی اپنے دفتروں میں سوگئے ۔ اس وجہ سے بازاروں میں بڑے پیمانے پر استحصال ہورہاہے ۔ گاہکوں کو بڑے پیمانے پر لوٹا جارہاہے ۔ بغیر کسی ریٹ لسٹ کی چیزیں فروخت کی جارہی ہیں ۔ اس پر کسی قسم کی روک لگانے کی کوشش نہیں کی جارہی ہے ۔ اس وجہ سے عام شہری سخت بے بسی کا اظہار کررہے ہیں ۔
اس بات نے سب کو حیران کردیا کہ دو چار روز گوشت خاص کر مرغوں کی ریٹ بحال رکھنے کی کوشش کی گئی ۔ لیکن چند روز گزرنے کے بعد اب پہلے سے زیادہ قیمت پر گوشت اور مرغے فروخت کئے جارہے ہیں ۔ اسی طرح سنڈے مارکیٹ کے حوالے سے بھی کہا جارہا ہے کہ قیمتوں پر کوئی کنٹرول نہیں ۔ بلکہ یہاں دکانداروں کی من مانی عروض کو پہنچ چکی ہے ۔ یہاں کے دکانداروں نے پورے مارکیٹ پر ایسا رعب جمادیا ہے کہ خریدار کو بات کرنے کا کوئی حق نہیں ۔ اس کا نتیجہ ہے ک دکاندار من مانی قیمت لگاکر چیزیں فروخت کررہے ہیں ۔ عید سے پہلے مارکیٹ میں کافی ابھار آتا ہے اور خرید و فروخت میں اضافہ ہوتا ہے ۔ ان تمام باتوں کو مد نظر رکھ کر سرکاری اداروں کو اس موقعے پر مارکیٹ کنٹرول کی اپنی کوششوں میں اضافہ کرنا چاہئے ۔ لیکن یہ بات بڑی معنی خیز ہے کہ تمام ایسے اداروں نے چپ سادھ لی ہے اور کہیں کوئی حرکت نظر نہیں آتی ۔ عید کے روز مارکیٹ چیکنگ کے بجائے عید سے ایک ہفتہ پہلے مارکیٹ کو اعتدال پر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ لوگ عام طور پر عید سے کئی روز پہلے بازار جاکر اپنی ضرورت کی چیزیں خرید لاتے ہیں ۔ ان دنوں عام خریداروں کو راحت پہنچانے کی سخت ضرورت ہے ۔ لیکن ایسا دیکھنے کو نہیں مل رہاہے ۔ اس پر سخت حیرانی کا اظہار کیا جارہاہے کہ بازاروں میں تاجروں کو من مانی کی کھلی ڈھیل دی گئی ہے ۔ عید پر ضرورت کی چیزوں پر کسی قسم کا کنٹرول نہیں ہے ۔ ایک طرف لوگوں کو بے کاری اور بے روزگاری کی وجہ سے سخت مشکلات کا سامنا ہے ۔ دکاندار خود اعتراف کررہے ہیں کہ پہلے کے مقابلے خرید و فروخت میں کافی کمی آگئی ہے ۔ ادھر آن لائن شاپنگ کی وجہ سے بھی مقامی دکانداروں پر برا اثر پڑا ہے ۔ لوگ مبینہ طور اس وجہ سے آن لائن شاپنگ کو فوقیت دیتے ہیں کہ وہاں کوالٹی اچھی ملتی ہے اور قیمتوں میں بھی کسی طرح کا شک و شبہ نہیں پایا جاتا ہے ۔ دکانداروں کو چاہئے کہ اس بات کا اندازہ لگائیں کہ ان کے استحصال کی وجہ سے خریدار آن لائن شاپنگ کو پسند کرتے ہیں ۔ دکانداروں کو اپنے رویے میں بہتری لانی چاہئے ۔ مناسب قیمتوں پر چیزیں فروخت کرنی چاہئے ۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا ہے ۔ دکاندار اس حوالے سے مناسب سوچ اپنانے پر تیار نہیں ہیں ۔ ہر دکاندار کی کوشش ہے کہ جو خریدار اس کی چنگل میں پھنس جائے اسی سے سارا حساب چکتا کیا جائے ۔ یہ دیکھے بغیر کہ اس کے دوبارہ خریداری پر آنے کے چانس ختم ہوتے ہیں ۔ خریدار کو اپنانے کے بجائے اس کی کھال اتارنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اس کا برا اثر دکانداروں پر ہی پڑتا ہے ۔ اس دوران ساری نظریں سرکاری اداروں پر لگی ہیں ۔ انہیں اپنی ذمہ داری نبھانی چاہئے ۔ عوام چاہتے ہیں کہ سخت تنگ دستی کے اس موقعے پر انہیں سہولیات پہنچائی جائیں ۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ سرکاری اہلکار بہت سے معاملوں میں سمجھوتہ ہی کرتے ہیں ۔ دکھاوے اور ایڈورٹائز کے لئے ایک دو بازاروں کا چکر کاٹا جاتا ہے ۔ کچھ سو روپے دکانداروں سے بطور جرمانہ وصول کئے جاتے ہیں ۔ سمجھا جاتا ہے کہ کام مکمل ہوا ۔ اس کا اثر یہ پڑتا ہے کہ جرمانہ کے طور ادا کی گئی رقم بھی خریداروں سے ہی وصول کی جاتی ہے ۔ جس دکاندار کو چار پانچ سو روپے جرمانہ بھرنا پڑے وہ یہ رقم مختلف اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کرکے حاصل کرتا ہے ۔ مسلسل مارکیٹ چیکنگ کا طریقہ اپنایا جاتا ۔ اس کے لئے کوئی میکا نزم تیار کیا جاتا تو اس میں استحصال کی کم گنجائش رہتی ۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا ۔ اوپر سے ہدایات ملتے ی سارے متعلق اہلکار فوج کی طرح بازار پر ٹوٹ پڑتے ہیں ۔ دبائو میں کمی محسوس کرتے ہی سب اپنی اپنی کرسیوں پر دبک کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ عید کی آمد کے موقعے پر مارکیٹ چیکنگ میں تیزی لانے کی ضرورت ہے ۔ خاص طور سے گوشت ، مرغ ، ملبوسات اور بیکری کی فروخت اور قیمت پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔
