جموں کشمیر کے مفتی اعظم مفتی ناصر الاسلام نے کئی دیگر ساتھیوں کے ساتھ مشورہ کرکے صدقہ فطر کی ریٹ کا اعلان کیا ۔ اس اعلان پر لوگوں نے عمل کرکے صدقے کی ادائیگی کی ۔ حالانکہ اس سے پہلے ان کی طرف سے رویت ہلال کے معاملے پر ایک بڑا تنازع شروع ہوگیا تھا ۔ اس کے باوجود لوگوں نے مفتی اعظم کے صدقہ فطر کے اعلان کو قبول کیا اور اس پر عمل کیا ۔ اس طرح سے عید سے پہلے لوگوں کی بڑی تعداد نے صدقہ فطر ادا کیا ۔ صدقہ فطر کے معاملے میں لوگ بڑے حساس ہیں اور بروقت ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ صدقہ فطر کے لئے حکم ہے کہ عید نماز سے پہلے ادا ہونا چاہئے ۔ عام مسلمان اس معاملے میں کوئی تساہل بھرتنے کے بجائے وقت پر اس کی ادائیگی کرتے ہیں ۔ ماہ رمضان میں یوں بھی نیکیاں بٹورنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ یہی معاملہ صدقہ فطر کا بھی ہے اور لوگ بڑی تعداد میں یہ صدقہ ادا کرتے ہیں ۔
یہ حوصلہ افزا بات ہے کہ لوگوں نے مفتی اعظم کے مقرر کردہ ریٹ کے مطابق ہی صدقہ فطر ادا کیا ۔ تاہم یہ بڑی بد قسمتی کی بات ہے کہ اس کے جع کرنے اور اس کے مصرف کے حوالے سے لوگوں کی صحیح رہنمائی نہیں کی گئی ۔ یہاں کئی سالوں سے ایک بڑا طبقہ دین کے نام پر استحصال کرکے عام لوگوں سے صدقات و خیرات وصول کرتا رہتا ہے ۔ بعد میں ان رقوم کو شریعت کے مقرر کردہ اصولوں کے بجائے اپنی خواہشات کو پورا کرنے میں خرچ کیا جاتا ہے ۔ سنجیدہ طبقے اس حوالے سے پوری طرح سے باخبر ہیں ۔ امکان یہی ہے کہ مفتی اعظم بھی اس بات سے بے خبر نہیں ہونگے ۔ خاص طور سے ماہ رمضان کے دوران جمع کئے جانے والے صدقات و زکوات کو جس طرح سے لوٹ لیا جاتا ہے وہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔ اسلام نے صدقات و زکوات کو جمع کرنے کے ساتھ اس کے مصرف کے مد پوری طرح سے واضح کئے ہیں ۔ اس کو مسلم سماج میں غربت دور کرنے اور دوسرے حاجت مندوں پر صرف کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اس دوران صدقہ اور زکوات کی رقم کو مسجدوں یا زیارت گاہوں کی تعمیر پر صرف کرنا حرام قرار دیا گیا ہے ۔ مقصد واضح ہے کہ شاندار عمارات کھڑا کرنے کے بجائے اس رقم کو غریب عوام اور دوسرے ضرورت مندوں پر خرچ کیا جائے ۔ ذاتی مصرف اور ذاتی ملکیت کے لئے ایسی رقم خرچ کرنا صریحاََ ناجائز ہے ۔ یہ سب بنیادی باتیں اسلام کے کسی بھی طالب علم کو معلوم ہونگی ۔ یقینی طور مفتی اعظم ان باتوں سے بے خبر نہیں ہونگے ۔ بلکہ مفتی کا اصل منصب یہی ہے کہ لوگوں کو ایسے شرعی احکامات سے باخبر کیا جائے ۔ اتنا کافی نہیں ہے کہ صدقہ و زکوات کی ادائیگی پر زور دیا جائے ۔ اس کے لئے شریعت کے مقرر کردہ نصاب کی تشہیر کی جائے اور باقی معاملات کو نظر انداز کیا جائے ۔ ایسا کرنے کا ہی نتیجہ ہے کہ مولویوں اور مفتیوں کی اتھارٹی لوگوں کی اندر کمزور ہورہی ہے ۔ علما ایسے نازک اور حساس معاملات میں لوگوں کی صحیح رہنمائی کرتے تو ان سے بدظنی نہ بڑھ جاتی ۔ بد نصیبی کی بات یہ ہے کہ اعلانیہ اور کھلم کھلا لوگوں کے صدقات اور زکوات پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے اور مفتی اعظم اس موقعے پر خاموش ہیں ۔ ان کی یہ خاموشی معنی خیز ہے ۔ ماہ رمضان کے دوران جمع ہونے والے صدقات و خیرات کا سرسری حساب کرکے اندازہ لگایا اجسکتا ہے کہ اس کو صحیح اور مطابق شریعت استعمال میں لایا جائے تو کچھ سالوں کے اندر جموں کشمیر میں غربت پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔ اس رقم سے جو حویلیاں تعمیر ہورہی ہیں اور اس پر ڈاکہ ڈالنے والے جس طرح کی شاہانہ زندگی گزارتے ہیں ان کو اس رقم کے ہڑپ کرنے سے روک لیا جائے تو معاشرے کے اندر غربت ختم کرنا مشکل نہیں ۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اسلام کے تحفظ کے نام پر ایک ایسا مافیا فروغ پاچکا ہے جو دن دہاڑے لوگوں کے عطیات ہڑپ کر جاتاہے ۔ اس طرح سے غریبوں کا گلا گھونٹ کر ایک مخصوص طبقے کو اپنے اثاثے بنانے میں مدد کی جاتی ہے ۔ وہ وقت دور نہیں جب لوگ اصل حقایق جان کر اس کے خلاف صف آرا ہونگے ۔ لیکن ایسے موقعے پر مفتی اعظم کی بات سنی جائے گی نہ شرعی احکامات کا پاس و لحاظ ہوگا ۔وقف بورڈ کا معاملہ ہمارے سامنے ہے ۔یہاں پچھلے ستھر سالوں سے لوٹ کھسوٹ کو نظر انداز کیا گیا یہاں تک کہ موجودہ سرکار کی طرف سے اس کے بہتر انتظام کا اقدام اٹھایا گیا ۔ اس وجہ سے تمام وہ استحصالی عناصر گھر بھیجدئے گئے جو عوام کے عطیات کو دیدہ دلیری سے لوٹ رہے تھے ۔ ایسے عناصر کی بے دخلی پر لوگوں نے بڑی خوشی کا اظہار کیا ۔ وہ دن دور نہیں جب صدقات و خیرات کے حوالے سے لوگ ا یسا ہی کریں گے ۔ اس طرح سے نہ صرف لوٹ کھسوٹ کے عادی لوگوں کی چھٹی ہوگی بلکہ بڑے بڑے مفتیوں کی حاکمیت بھی ناقابل قبول ہوگی ۔
