ہر سال کی طرح منگلوار کو پورے ملک میں پنچایت راج ڈے منایا گیا ۔ اس موقعے پر پنچایت راج کے حوالے سے جگہ جگہ جانکاری کیمپ منعقد کئے گئے ۔ ملک میں قومی پنچایت راج ڈے 2010 سے منایا جارہا ہے ۔ اس دن تقریبات کا آغاز من موہن سنگھ سرکار نے کیا تھا تاکہ لوگوں کو پنچایتی راج کے مقاصد سے باخبر کیا جائے ۔ موجودہ سرکار نے اس روایت کو بحال رکھتے ہوئے پچھلے سالوں کی طرح آج بھی پنچایتی حلقوں میں تقریبات کا انعقاد کیا ۔ ملک کے مختلف علاقوں سے اطلاع ہے کہ پنچایت راج ڈے کا بڑے پیمانے پر انعقاد کیا گیا ۔ کشمیر میں بھی اس حوالے سے دیہی علاقوں میں کئی تقریبات کا انعقاد کیا گیا ۔ لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا نے ایسی ہی ایک تقریب میں سانبہ علاقے میں شرکت کی ۔ یہاں انہوں نے مختلف پنچایتی حلقوں کے نمائندوں سے بات چیت کی اور پنچایت راج کو مضبوط بنانے کے لئے کام کرنے والے افراد کو انعامات سے نوازا ۔ تقریب میں انعامات تقسیم کرتے ہوئے ان اشخاص کے کارنامے اور نمایاںطور انجام دئے گئے کام لوگوں کے سامنے رکھے گئے ۔ تقریب میں موجود لوگوں نے کارنامے انجام دینے والوں کی کہانی بڑے غور سے سنی اور ان کی تعریف کی ۔ لیفٹنٹ گورنر کا کہنا ہے کہ پنچایتی نمائندے عوامی بہبود اور تعمیراتی کاموں میں حصہ لے کر بہت ہی بہتر کام انجام دے رہے ہیں ۔
جموں کشمیر میں پنچایتی راج کو فروغ دینے میں موجودہ سرکار نے کافی کام کیا ۔ اس سے پہلے طویل عرصے تک اس نظام کو نظر اندازکیا گیا اور پنچایتی انتخابات کرانے کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی ۔ تیس سال کے طویل وقفے کے بعد موجودہ سرکار نے ایسے انتخابا ت کرائے ۔ ابتدائی مرحلے پر اس حوالے سے تذبذب پایا جاتا تھا ۔ کئی موقعوں پر کدشہ ظاہر کیا گیا کہ ایسے انتخابات سے منعقد ہونے والے عوامی نمائندوں کو کام کرنے نہیں دیا جائے گا ۔ بلکہ کئی ایسے پنچوں اور سرپنجوں کو ہلاک بھی کیا گیا ۔ تاہم سرکار نے اس طرح کی کاروائیوں کو خاطر میں نہیں لایا ۔ پنچایتی نمائندوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے کام جاری رکھا گیا ۔ اگرچہ بہت کم حلقوں میں اس طرح سے کام کرنے والے نمائندے سامنے آئے ۔ حفاظٹی صورتحال کی وجہ سے کئی پنجوں اور سرپنجوں نے استعفے دئے اور سرکار کے ساتھ کام کرنے سے انکار کیا ۔ اس کے باوجود کئی حلقوں میں پنچایتے ادارے بڑی دل جمعی سے کام کرتے رہے ۔ ان ممبران نے کل بھی اس ھوالے سے منعقدہ تقریبات میں شرکت کی ۔ اس طرح سے پنچایتی راج کو آگے بڑھانے میں مدد مل رہی ہے ۔ ملک میں پنچایتی راج شروع میں قائم کرنے کا عندیہ دیا گیا اور اسے بنیادی انتظامی ڈھانچے کا اہم ستون مانا گیا ۔ لیکن بدقسمتی سے یہ نظام فعال بنانے کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی ۔ اب وقت گزرنے کے ساتھ ایسے اداروں کو مضبوط بنانے کی طرف توجہ دی جارہی ہے ۔ سرکار کا خیال ہے کہ دہلیز پر انصاف کرنے میں پنچایتی راج سے بہتر کوئی دوسرا طریقہ نہیں ۔اس نظام کو بہتر بنانے سے لوگوں کے بہت سے مسائل مقامی سطح پر حل کئے جاسکتے ہیں ۔ سرکاری اداروں کے کام کاج کو بہتر بنانے اور ان پر نظررکھنے میں مدد مل سکتی ہے ۔ کشمیر میں انتہائی مشکل حالات میں پنچایتی راج کو متعارف کرایا گیا اور اس کے لئے انتخابات کرائے گئے ۔ اس طرح سے پنجوں اور سرپنجوں کی ایک بڑی کھیپ سامنے آئی ۔ خیال تھا کہ پنچایتی نمائندے عوام وک بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے علاوہ سماجی انصاف کو یقینی بنانے میں مدد فراہم کریں گے ۔ لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ بلکہ پنچایتی نمائندے عوامی نمائندے ثابت ہونے کے بجائے ٹھیکہ داری تک محدود ہوکر رہ گئے ۔ ایسے نمائندے بلاک آفسوں میں تعمیراتی کام انجام دینے اور بڑے پیمانے پر روپے پیسہ بٹورنے تک محدود ہوکر رہ گئے ۔ اس دوران ان کے کئی گھپلے سامنے آئے ۔ مقامی سرکاری اہلکاروں کو ڈرانے دھمکانے اور انہیں مرعوب کرنے کا کام انجام دیا گیا ۔ کئی ایسے اسکنڈل سامنے آئے جن سے پنچایتی نمائندوں کے کردار پر شک وشبہہ کیا جانے لگا ۔ پہلے اندازہ تھا کہ عوامی نمائندے عوامی خدمت کرنے والے سرکاری کارکنوں پر نظر گزر رکھیں گے ۔ا س طرح سے بہتر ورک کلچر فراہم ہونے میں مدد ملے گی ۔ لیکن اس دوران ایسے تمام خیالات غلط ثابت ہوئے اور پنچایتی ممبروں کی ساری توجہ اپنے نام ٹھیکے الارٹ کرنے تک محدود ہوکر رہ گئے ۔ اس کا اثر پنچایتوں کی کارکردگی پر پڑا ۔ پنچایتی نمائندے اصل کام سے دور ہوکر فروعات میں مشغول ہوگئے ۔ ان کی اس خواہش کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بلاک آفیسروں اور ان کے ماتحت کام کرنے والے اہلکاروں نے بڑے پیمانے پر عام لوگوں کا استحصال کرنا شروع کیا ۔ سرکار تک بہت سی شکایات پہنچی اور کئی اہلکاروں کے خلاف کاروائی بھی کی گئی ۔ تاہم بیشتر حلقوں میں ان کی من مانی جاری رہی ۔ یہاں تک کہ کورپشن کے کئے اسکنڈل بھی سامنے آئے ۔ کشمیر انتطامیہ نے اب یقن دہانی کرائی ہے کہ پنچایتی راج کو عوام دوست بنانے کے لئے اقداماتا ٹھائے جائیں گے ۔ ادھر اس حوالے سے بہت جلد انتکابات کرانے اک اندازہ ہے ۔ امید کی جارہی کہ اب کی بار ماضٰ کی نسبت بہتر نمائندے سامنے آئیں گے ۔
