قومی کمیشن برائے خواتین کی طرف سے جو رپورٹ سامنے آئی ہے اس میں انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے سخت تشویش کا اظہار کیا گیا ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہر سال انسانی اسمگلنگ میں بتدریج اضافہ ہورہاہے ۔ کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ رپورٹ میں جو صورتحال پیش کی گئی ہے زمینی حقایق اس سے کہیں زیادہ ا بدتر ہیں ۔ بلکہ کمیشن کی چیر پرسن نے از خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ عملی صورتحال سنگین سے سنگین تر ہوتی جارہی ہے ۔ رپورٹ کے تناظر میں کشمیر میں ایک ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا ۔ اس دوران پتہ چلا کہ کشمیر میں پچھلے سال انسانی اسگلنگ میں 15 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے ۔خدشہ ہے کہ رواں سال کے دوران اس میں مزید اضافہ ہوگا ۔ اس حوالے سے عوامی اور دوسرے سماجی حلقوں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے ۔
انسانی اسمگلنگ ایک عالمی مسئلہ ہے ۔ کئی عالمی ادارے اس مسئلے پر سخت تگ و دو میں مصروف ہیں ۔ اس کے باوجود یہ مسئلہ ختم ہونے کے بجائے سنگین صورتحال اختیار کررہا ہے ۔ کشمیر میں یہ مسئلہ اس وجہ سے زیادہ تشویش کا باعث ہے کہ یہاں اس مسئلے سے خواتین کا استحصال جڑا ہوا ہے ۔ خواتین کو کئی طرح کے جھانسے دے کر دوسرے علاقوں کو اسمگل کیا جاتا ہے ۔ جہاں ان کی حالت بڑی تشویشناک ہوتی ہے ۔ خواتین کا اسطرح سے برآمد کئے جانے کی کئی وجوہات بتائی جاتی ہیں ۔ غربت کا اس معاملے میں کلیدی رول رہتا ہے ۔ اس کے علاوہ شادی میں اڑچنیں پیش آنے کی وجہ سے خواتین کی تجارت کی جاتی ہے ۔خواتین کی یہ تجارت کشمیر میں بھی پائی جاتی ہے ۔ بہار اور بنگال کے علاوہ برما مہاجرکیمپوں میں موجود کم سن لڑکیوں کی تجارت کی جاتی ہے ۔ اس دوران یہ لڑکیاں ایسے تاجروں کے ہتھے چڑھ جاتی ہیں جو کچھ ہزار روپے کے عوض انہیں فروخت کرتے ہیں ۔ ان کے والدین مجبور ہوتے ہیں کہ غربت میں وہ ان کی دیکھ بال سے قاصر ہونے کے علاوہ ان کی عزت بچانے کے قابل بھی نہیں ہوتے ۔ والدین انہیں سخت مجبوری کی حالت میں فروخت کرتے ہیں ۔ انہیں جھانسا دیا جاتا ہے کہ شادی کرنے کے بعد ان کی حالت بہتر ہوجائے گی ۔ حالانکہ دیکھا گیا ہے کہ ایسی لڑکیوں کے ساتھ وہ لوگ شادی کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں جو خود سخت غریبی اور ناداری کی حالت میں ہوتے ہیں ۔ بلکہ ایسے بیشتر نوجوان آوارہ اور روگردان ہوتے ہیں ۔ اپنے آبائی علاقوں میں انہیں کوئی سنجیدہ شخص اپنی لڑکی دینے کو تیار نہیں ہوتا ۔ بلکہ ان کی شادی میں مدد کرنے پر بھی کوئی آمادہ نہیں ہوتا ہے ۔ بعد میں یہ نوجوان دلالوں سے رابطہ کرکے انہیں بھاری کمیشن ادا کرکے شادہ کرواتے ہیں ۔ ایسی شادی کے بعد دلہن کی جو حالت ہوتی ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔ ایسی شادیوں کے حوالے سے سرکار ابھی تک کوئی پالیسی بنانے کی طرف توجہ نہیں دے سکی ہے ۔ یہ ایک سنگین معاملہ ہے جس کو روکنے کی ضرورت ہے ۔ کم از کم اس کے لئے ضابطہ اخلاق بنانا چاہئے ۔ حکومت ایسی شادیوں کی رجسٹریشن لازمی بناکر اس کو معتبر بناسکتی ہے ۔ حکومت ایسے شادی شدہ جوڑوں سے ضمانت حاصل کرکے خواتین کے لئے مابعد شادی کی صورتحال بہتر بناسکتی ہے ۔ ایسا نہ ہونے کی وجہ سے بیشتر لڑکیوں کی شادی شدہ زندگی انتہائی مایوس کن ہے ۔ اہم بات یہ ہے کہ ان کے لئے کوئی حفاظتی حصار نہیں پایا جاتا ہے ۔ دوردراز علاقوں میں بیاہنے کی وجہ سے یہ اپنے مسائل ماں باپ یا بھائی بہنوں سے شیئر نہیں کرسکتی ہیں ۔ ایسا کرنے کی صورت میں انہیں جسمانی اذیت سے گزرنا پڑتا ہے ۔ انہیں کوئی قانونی مدد بھی نہیں ملتی ہے ۔ بلکہ ڈر اور خوف کی وجہ سے یہ اپنے مسائل کسی اعانتی ادارے کے پاس بھی نہیں لے جاتی ہیں ۔ انہیں یہ تک معلوم نہیں ہوتا کہ کہاں جاکر قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے ۔ ایک طرف ایسی خواتین کی اسمگلنگ میں اضافہ ہورہا ہے ۔ دوری طرف قانون نافذ کرنے والے ادارے اس حوالے سے خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ بہت سے حلقوں کے لئے یہ بات تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے ۔ ایسی شادیوں کے نتیجے میں سماج میں کئی طرح کے مسائل جنم لے رہے ہیں ۔ ان کے بچے تعلیم کے معاملے میں سخت بے حس ہوتے ہیں ۔ اکثر بچے اسکول چھوڑ کر کام پر لگ جاتے ہیں۔ گھریلو زندگی تنائو سے بھری ہونے کی وجہ سے یہ کئی جرائم میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایسے جوڑوں سے جنم لینے والے بچوں کو سماج تاحال قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہے ۔ ان کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا ہے ۔ بلکہ حقارت سے ٹھکرایا جاتا ہے ۔ ان کا دوستی کا حلقہ بہت محدود ہوتا ہے ۔ اس وجہ سے ان کی سوچ پر منفی اثرات کا پڑنا یقینی بات ہے ۔ تاہم حکومت انہیں قانونی تحفظ فراہم کرکے ان کے وقار کو بڑھا سکتی ہے ۔ انسانی اسمگلنگ پر حتمی روک لگانے کے اقدام تک ضروری ہے کہ اس حوالے سے قانونی چارہ سازی کی جائے ۔ اس کے علاوہ انتظامیہ کو متحرک ہوکر کام کرنا ہوگا ۔ نمبرداروں اور دوسرے عوامی نمائندوں کو اعتماد میں لے کر اس معاملے پر بہتر کام کرنا مشکل نہیں ۔ البتہ اس مسئلے کے سنگینی کو سمجھ کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے ۔
