سیب صنعت سے جڑے کسانوں نے مرکزی سرکار کے اس اقدام پر خوشی کا اظہار کیا ہے جس سے کشمیر ی سیب کو بازار میں فروغ ملنے کا امکان ہے ۔ اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ حکومت نے سیب کی در آمد سے متعلق قانون میں ترمیم کرکے اسے بہتر بنایا ہے ۔ خبر رساں ایجنسیوں کی طرف سے دی گئی اطلاع میں کہا گیا کہ نئی پالیسی کے تحت در آمد کئے جانے والے سیب کی کم سے کم قیمت مقرر کرکے مقامی پیداوار کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے ۔ ترمیم شدہ ایکٹ کے تحت مقررہ قیمت سے کم پر سیب درآمد کرنا ایک جرم تصور ہوگا اور ایسے مجرم کے خلاف قانونی چارہ جوئی ہوگی ۔ اس اقدام سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ ملک کے اندر سیب کی پیداوار پر پڑنے والے اثرات سے تحفظ حاصل ہوگا اور در آمد کئے جانے والے سیب کی مقدار کم ہوگی ۔ باہر سے منگائے جانے والے سیبوں کی کم مقدار کی سبب مقامی میووں کی مانگ بڑھ جائے گی ۔ اس سے ظاہر ہے کہ کسانوں کو بالواسطہ فائدہ فائدہ حاصل ہوگا ۔
پچھلے سال ملکی سیب صنعت کو اس وقت بڑا دھچکا لگا تھا جب مبینہ طور ایران اور دوسرے ممالک سے سیب برآمد کرکے بازار میں بہت کم قیمت پر فروخت کیا گیا ۔ اس وجہ سے خاص طور سے کشمیری سیب کی مانگ گرنے سے بیشتر مال فروخت ہونے سے رہ گیا تھا ۔ بیشتر کسانوں کو اس وجہ سے سخت نقصان اٹھانا پڑا ۔ بلکہ کسانوں نے مال تیار کرنے کے پورے سال کے دوران جو سرمایہ اس پر لگایا تھا وہ سب کچھ ضایع ہوگیا تھا ۔ اس وجہ سے کسانوں کو سخت خسارے سے گزرنا پڑا تھا ۔ کووڈ کے دوران آمدنی میں کمی کی وجہ سے لوگوں کی خریداری کی سکت کافی حد تک کم ہوگئی ۔ اس کا براہ راست اثر میوہ صنعت پر پڑا ۔ ایسے لوگ جو کم آمدنی کا شکار ہوں پیسہ بچانے کی غرض سے سب سے پہلے میوے کا استعمال کم کرتے ہیں ۔ بنیادی ضروریات کو ترک تو نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ سخت مشکلات کے دوران بھی روٹی اور کپڑے کا انتظام بہر حال کرنا ہی پڑتا ہے ۔ اسی طرح صحت بحال رکھنے کے لئے ادویات کی خریداری کو روکا نہیں جاسکتا ۔ اس دوران میوے کا استعمال کم کیا جاتا ہے ۔ اس دوران آدمی زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتا ہے کہ کم قیمت میں ملنے والے میوے خریدے گا ۔ ایک ایسے مرحلے پر جب سیب مارکٹ اپنے عروج پر تھا اچانک سیب درآمد کرکے کم قیمت پر فروخت ہونے لگے ۔ اس حوالے سے یہ الزام بھی لگایا گیا کہ کشمیر میوہ صنعت کو نقصان پہنچانے کے لئے ایسا کیا گیا ۔ حالانکہ بہت سے حلقوں نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے اس کا جواز فراہم کرنے کی کوشش کی ۔ بتایا گیا کہا یسا پہلی بار نہیں ہوا بلکہ میوہ در آمد کرنے کی روایت بہت پرانی ہے اور ہر سال ایسا کیا جاتا ہے ۔ تاہم ایک بات واضح ہوگئی کہ بیرون ملک بھی مالی مشکلات کا سامنا ہے ۔ اس وجہ سے سیب کم قیمت پر خریدے گئے اور بازار میں بہت ہی کم قیمت پر فروخت ہورہے ہیں ۔ اگرچہ ایسے سیب کسی بھی کشمیر سیب کا مقابلہ نہیں کرپاتے ۔ ان کی کوالٹی اور صحت کے لحاظ سے درآمدی سیب کسی طور کشمیری سیب کا تبادل نہیں بن سکتے ۔ لیکن کم قیمت پر مہیا ہونے کی وجہ سے لوگ اس طرف لپک گئے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایسے سیب کشمیری سیبوں کے نام پر بھیچے گئے ۔ خریدار کو یہ ہرگز معلوم نہ تھا کہ جو میوہ وہ خرید رہا ہے کشمیر کا نہیں بلکہ کہیں اور سے حاصل کیا گیا ۔ پچھلے سال کشمیر کے کسانوں کو ایک اور مصیبت سے سامنا کرنا پڑا ۔ یوں ہوا کہ جب سیب کی پیداوار عروج پر تھی اور میوے کو جلد از جلد مارکیٹ میں پہنچانا تھا تو قومی شاہراہ کو کئی کئی روز تک بند رکھا گیا ۔ اس وجہ سے بروقت میوہ دہلی اور دوسرے شہروں میں پہنچانا ممکن نہ ہوا ۔ اس حوالے سے بھی الزام لگایا گیا کہ ایسا جان بوجھ کر کیا گیا ۔ بلکہ اس وجہ سے متعلقہ ذمہ دار آفیسر کو وہاں سے ہٹایا گیا ۔ ایسا اقدام دیر سے اٹھایا گیا اور بڑے پیمانے پر کسانوں کو نقصان اٹھانا پڑا ۔ اب مرکزی سرکار نے بر وقت قدم اٹھاتے ہوئے کشمیر سیب صنعت کو محفوظ بنانے کی مبینہ طور ایک اچھی کوشش کی ۔ اس سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ سیب صنعت کو تحفظ فراہم ہوگا ۔ واقعی ایسا ہوا تو کسانوں کے لئے یہ بہت ہی خوشی کا باعث ہوگا ۔ کشمیر میں اب سیب صنعت واحد صنعت ہے جس سے عام کسانوں کو کسی حد تک آمدنی حاصل ہوتی ہے ۔ اگرچہ سیب کی پیداوار ایک پیچیدہ مسئلہ بن گیا ہے ۔ باقی فصلوں کے مقابلے میں سیب کی پیداوار پر بہت زیادہ خرچہ آتا ہے ۔ خاص طور سے کیمیاوی کھادوں اور جراثیم کش ادویات کے استعمال نے اس کو ایک مہنگا سودا بنادیا ہے ۔ کسانوں کو پورا سال ادویات چھڑکنے کا کام کرنا پڑتا ہے ۔ جب کہیں فصل کو تباہ ہونے سے بچایا جاتا ہے ۔ اس سال کسانوں کو کئی بار قدرتی آفات کا سامنا رہا ۔ بے وقت کی بارشوں اور برف باری کے علاوہ ژالہ باری کا سامنا بھی رہا ۔ ابھی میووں کی پیداوار ابتدائی مرحلے میں ہے ۔ آگے معلوم نہیں کہ موسم کی صورتحال کس حد تک کسان کے فائدے میں رہے گی ۔ تاہم مرکزی سرکار کی اس حوالے سے نئی درآمدی پالیسی سے کسی حد تک راحت میسر آنے اک اندازہ لگایا جاتا ہے ۔ اس کو ایک کسان دوست اقدام سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔
