لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا نے اس بات پر زور دیا ہے کہ جامع زرعی ترقیاتی پروگرام کو کامیاب بنایا جائے ۔ ڈورو اننت ناگ میں ایک عوامی پروگرام میں بولتے ہوئے انہوں نے کہا کہ زرعی ترقی حکومت کی ترجیح ہے جس کو ممکن بنانا سب کا مشن ہونا چاہئے ۔ اس حوالے سے مختلف حکومتی پروگراموں کا ذکر کتے ہوئے انہوں نے کسان سمپرک ابھیان کی بات کی اور کسانوں کے لئے اس پروگرام میں شرکت لازمی قرار دی ۔ سنہا کا کہنا ہے کہ زرعی ترقی کو آگے بڑھانے کے لئے کسانوں کو اس حوالے سے جانکاری دیناضروری ہے ۔ یہ جانکاری جب ہی حاصل کی جاسکتی ہے کہ کسان اس سے جڑے سمپرک ابھیان میں شرکت کریں ۔ کسانوں کی واقفیت ، ہنر مندی اور دوسرے جدید طریقوں پر زور دیتے ہوئے ایل جی نے اس طرح سے جامع زرعی ترقیاتی پروگرام کی موثر عمل آوری کو یقین قرار دیا ۔ عوامی جلسے میں اس موضوع کو آگے بڑھاتے ہوئے سنہا نے کہا کہ زرعی ترقی کا خواب مضبوط کاشتکاری ماحولیاتی نظام سے ہی آگے بڑے گا ۔ اس طرح سے انہوں نے جامع زرعی ترقی پروگرام کو لے کر تفصیلی گفتگو کی ۔
زرعی ترقی کسی بھی ملک کو مضبوط بنانے کے لئے اہم رول ادا کرتی ہے ۔ زرعی شعبے کو نظر انداز کرکے ملک کو مالی یا دوسرے لحاظ سے مجؓوط نہیں بنایا جاسکتا ہے ۔ ملک کے پالیسی ساز پچھلے کچھ عرصے سے ملک کو مضبوط بنانے پر زور دے رہے ہیں ۔ ایسے پالیسی ساز اس بات سے بے خبر نہیں کہ زرعی شعبے کو نظر انداز کرکے ملک کو مضبوط اور ترقی یافتی نہیں بنایا جاسکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے کچھ عرصے سے جہاں دوسرے کئی شعبوں کو آگے بڑھانے پر زور دیا جارہاہے وہاں کسانوں کو زرعی شعبہ مضبوط بنانے کی تاکید کی جارہی ہے ۔ یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ ملک کے اعلیٰ طبقے کے لوگ یہ بات سمجھ چکے ہیں کہ زرعی شعبے کو ساتھ لئے بغیر ملک کی ہمہ جہت ترقی کو ممکن نہیں بنایا جا سکتا ہے ۔ آزادی کے فوراََ بعد جے جوان اور جے کسان کا نعرہ دیا گیا ۔ لیکن عملی طور کسانوں کو ساتھ لے کر چلنے کی کوئی خاص کوششیں نہیں کی گئیں ۔ اس وجہ سے کسان سخت مایوس ہوئے اور زرعی شعبہ خاطر خواہ ترقی نہیں کرسکا ۔ ملک کے کسانوں کی آتم ہتھیا نے صاف ظاہر کیا کہ کسانوں کو ایسی سہولیات نہیں دی جارہی ہیں جن کی مدد سے وہ زرعی شعبے کو ترقی دے کر اپنا اور اپنے ملک کا دفاع کرسکتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ کسان حکومتی پالیسی سے مطمئن نہیں تھے ۔ لیکن اب صورتحال یک سر بدل چکی ہے ۔ کسانوں نے مل جل کر زرعی شعبے کی اہمیت کو اجاگر کیا ۔ موجودہ سرکار نے جہاں تعلیم ، دفاع اور سائنس کے شعبوں کو نئے ڈھنگ سے منظم کرنے کی بات کی وہاں زرعی شعبے کو ترقی دینے کے کئی پروگرام سامنے لائے ۔ کسان سمپرک ابھیان اسی سلسلے کا ایک پروگرام ہے جس کے تحت کسانوں کو جدید کاشتکاری کے طریقوں سے روشناس کرایا جاتا ہے ۔ چار مہینوں پر مشتمل اس مختصر پروگرام کے حوالے سے بڑی خوش فہمی کا اظہار کیا جاتا ہے ۔ کسانوں پر زور دیا جارہاہے کہ وہ اس جانکاری پروگرام کے ساتھ جڑ کر زرعی شعبے کو ترقی دینے کے لئے کام کریں ۔ یہ بات یقینی ہے کہ کسانوں کو ملک کی ترقی میں رول ادا کرنے کے لئے کہا جائے تو وہ پیچھے نہیں رہیں ۔ ملک کو آزاد کرانے میں کسانوں نے بڑا اور بنیادی رول ادا کیا ۔ بعد میں کسانوں کی جدوجہد کے نتیجے میں ہی ملک کے اندر بہت سے مسائل پر قابو پایا جاسکا ۔ اس دوران کئی ممالک نے زرعی شعبے کو جدید لائنوں پر ڈالتے ہوئے اس شعبے کو کافی ترقی دی اور ایسے ممالک آج ترقی یافتہممالک کی صف میں شامل ہیں ۔ لیکن ہم چاہنے اور تقریریں کرنے کے باوجود اس شعبے کو صحیح راستے پر گامزن نہ کرسکے ۔ موجودہ سرکار کا خیال ہے کہ کسانوں کو بہتر جانکاری دے کر جامع زرعی ترقی کو ممکن بنایا جاسکتا ہے ۔ یہ بڑی اہم بات ہے کہ زرعی ترقی کے لئے منصوبہ بندی کی جارہی ہے اور اس شعبے کی جامع ترقی کو ممکن بنانے پر زور دیا جارہاہے ۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ کسانوں کو مایوسی سے نکال کر زرعی شعبے کو آگے بڑھانے کے پروگرام سے جوڑا جائے ۔ کسانوں کی ہمہ جہت محنت سے ہی ایسا ممکن ہے کہ زرعی شعبے کو ترقی دی جائے ۔ ورنہ ایسا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا ۔ زرعی شعبے کو آگے بڑھانے میں ناکام رہے تو یقینی طور ملک کی بڑی آبادی کا پیٹ بھرا نہیں جاسکتا ۔ ملک میں آبادی کا بڑا حصہ آج بھی کچھ کھائے پئے بغیر سونے پر مجبور ہے ۔ ایسے لوگ اپنی پیٹ کی آگ بجھانے میں ناکام رہتے ہیں ۔ جب صورتحال یہ ہو کہ لوگوں کی اتنی بڑی تعداد خوراک کے دو لقمے حاصل کرنے میں ناکام ہوں تو ان کے لئے ملک کی ترقی کسی کام کی نہیں ۔ خالی پیٹ سونے والے لوگوں کے لئے اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ زر مبادلے اک حجم کتنا بڑا ہے اور ترقی کی شرح فیصد کیا ہے ۔ ان کے لئے سائنس ، ٹیکنالوجی ، تعلیم ، تجارت بڑے لوگوں کے کھیل تماشے ہیں ۔ سیاست ان کے لئے استحصال کا ہتھکنڈہ ہے ۔ ہاں انہیں دو وقت کی روٹی مل جائے تو ترقی کا خواب ان کی نظروں میں مکمل ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ زرعی ترقیاتی پروگرام کو سراہا جاتا ہے ۔
