سیکٹریٹ میں منعقدہ ایک تقریب میں اس بات پر زور دیا گیا کہ صحت خدمات میں مسلسل بہتری لائی جائے ۔ لیفٹنٹ گورنر کے ایک مشیر کی صدارت میں منعقدہ اس تقریب میں جموں کشمیر میں صحت خدمات کا جائزہ لیا گیا ۔ تقریب میں صحت و طبی تعلیم کے شعبہ سے وابستہ کئی اعلیٰ عہدیداروں کے علاوہ ضلعی سطح کے ہسپتالوں کے منتظمین بھی موجود تھے ۔ اس دوران صحت مراکز کو فراہم بنیادی ڈھانچہ اور عمومی صحت کی دیکھ بال کا جائزہ لیا گیا ۔ میٹنگ میں صحت خدمات میں مسلسل بہتری لانے کے علاوہ مریضوں کی دیکھ ریکھ کے معیار کو بہتر بنانے کے لئے مشترکہ کوششوں کو ضروری قرار دیا گیا ۔ اس بات کا احساس دلایا گای کہ طبی تعلیم کے لئے نئے چیلنج سامنے آرہے ہیں ۔ ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے اختراعی طریقہ کار اختیار کرنے کی اہمیت سامنے لائی گئی ۔ اس بات کا وعدہ کیا گیا کہ حکومت بنیادی ڈھانچہ کے علاوہ جدید سہولیات فراہم کرنے میں کوئی فروگزاشت نہیں کرے گی بلکہ ہر ممکن تعاون فراہم کرے گی ۔ تاہم ایسی سہولیات سے فائدہ اٹھانا اور مریضوں کو اس کے فوائد پہنچانا طبی عملے کا کام ہے ۔ اس حوالے سے ایک مضبوط میکانزم بنانے پر زور دیا گیا ۔ طبی عملے کو جواب دہ بنانے اور میسر آنے والے جدید سامان کی جنچ کرنے کے لئے کمیٹیاں تشکیل دینے کی ہدایات دی گئیں ۔ تاکہ ایسے سامان کو استعمال میں لاکر مریضوں کو سہولیات فراہم کی جائیں ۔ اس طرح سے طبی مراکز کے اندر طبی سہولیات کے ساتھ نظام کو درست بنانے کے لئے طریقہ کار متعین کرنے پر زور دیا گیا ۔
حکومت پچھلے کئی سالوں سے طبی مراکز کو عوام کے لئے اطمینان بخش کارکردگی دکھانے پر زور دے رہی ہے ۔ اس دوران ہسپتالوں کے ڈھانچے کو ترقی دی گئی اور شہری علاقوں کے علاوہ دور دراز کی بستیوں میں طبی مراکز تعمیر کئے گئے ۔ تمام ہسپتالوں کو بنیادی سہولیات سے آراستہ کیا گیا ۔ کیتھ لیبوں کے علاوہ جانچ اور دوسری سہولیات فراہم کی گئیں ۔ اس کے باوجود لوگ سرکاری ہسپتالوں میں موجود عملے سے عدم اطمینان کا اظہار کررہے ہیں ۔ یہ بات بڑی اہم ہے کہ سرما کے موسم کے دوران کشمیر میں طبی سہولیات کی اشد ضرورت پڑتی ہے ۔ عام شہری کئی طرح کے امراض سے دوچار ہوتے ہیں ۔ منفی درجہ حرارت کے اندر اپنی صحت کو بحال رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے ۔ خاص طور سے دمہ اور چھاتی کے دوسرے امراض سے نپٹنا دشوار ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آسودہ حال لوگ ان ایام کے دوران کشمیر میں رہنے کے بجائے جموں اور دوسرے گرم علاقوں کو منتقل ہوجاتے ہیں ۔ بلکہ کئی سو خاندان ان علاقوں کو منتقل ہوجاتے ہیں ۔ اس طرح سے یہ صحت کی بحالی اور امراض سے بچائو کے لئے نئے ٹھکانے تلاش کرتے ہیں ۔ بہت سے دائمی مریض جموں کشمیر کے ہسپتالوں میں علاج کرانے کے بجائے دہلی ، ممبئی ، امرتسر اور ایسے ہی دوسرے علاقوں میں موجود ڈاکتروں سے علاج معالجہ کے لئے ملتے اور رابطہ کرتے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عوام جموں کشمیر میں علاج کرانے کے بجائے دوسرے علاقوں کو جانے کو فوقیت دیتے ہیں ۔ وجہ یہ نہیں کہ دوسرے علاقوں میں زیادہ قابل ڈاکٹر یا بہتر سہولیات میسر ہیں ۔ بلکہ صحیح صورتحال یہ ہے کہ کشمیر کے ہسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹر اور دوسرے اہلکار کسی طور قابل بھروسہ نہیں رہے ہیں ۔ ان کا مریضوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا رویہ کسی طور حوصلہ افزا نہیں ہے ۔ اپنے نجی ہسپتالوں اور کلنکوں کو فروغ دینے کے لئے ایسے اہلکار سرکاری ہسپتالوں میں موجود بہتر طبی سہولیات کو عام مریضوں کے لئے فائدہ بخش بنانے کے بجائے ان سہولیات کو ضایع کرتے ہیں ۔ بلکہ بیشتر ڈاکٹر صاحبان سرکاری ہسپتالوں میں کئے جانے والے ٹیسٹ قابل اعتماد نہیں مانتے ہیں ۔ مریضوں کو اپنے منظور نظر لیبارٹریوں سے ٹیسٹ کرانے کا مشورہ دیا جاتا ہے ۔ جان لیوا بیماریوں میں ملوث اور فوری ضرورت کی جانچ کرانے کے لئے مہینوں کا وقفہ رکھا جاتا ہے ۔ مریض اتنے لمبے عرصے کا انتظار نہیں کرسکتا ہے ۔ اس دوران صحیح جانچ نہ کرانے کی صورت میں اس کی موت واقع ہوسکتی ہے ۔ اس وجہ سے مریض پرائیویٹ ٹیسٹ مراکز سے فوری ٹیسٹ کرانے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ خیال تھا کہ انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیدار اس صورتحال سے واقف نہیں اور ان بے ضابطگیوں پر قابو پانے پر توجہ نہیں دیتے ۔ لیکن حالیہ میٹنگ میں دی گئی ہدایات سے پتہ چلا کہ بنیادی سطح پر عوام کو درپیش مسائل ان حکام سے اوجھل نہیں ۔ ان مسائل کو حل کرنے پر زور دیا جارہاہے ۔ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ مقامی ملازم اپنے عوام کو بہتر طبی خدمات فراہم کرنے کے بجائے ان کا استحصال کرتے ہوئے اپنی آمدنی کے ذرایع بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ان کی ساری توجہ مریضوں سے رقم حاصل کرنے پر مرکوز ہوتی ہے ۔ اس طرح کی سوچ نے پورے طبی نظام کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بنیادی سطح پر موجود طبی مراکز میں کام کرنے والے عملے کو جواب دہ بنایا جائے اور عام مریضوں سے فیڈ بیک حاصل کرکے اس حوالے سے ضروری فیصلے لئے جائیں ۔
