اس بات نے سب کو حیران کردیا کہ کپوارہ کے ایک نقلی آفیسر کو اڑیسہ سے گرفتار کیا گیا ہے ۔ گرفتار کئے گئے نوجوان سے متعلق بتایا گیا کہ خود کو وزیراعظم دفتر کا عہدہ دار جتلانے کے علاوہ آرمی آفیسر یہاں تک کہ این آئی اے کا نمائندہ جتلاتا تھا ۔ پولیس نے اس حوالے سے بتایا کہ نوجوان کو اڑیسہ کی ایس ٹی ایف کی ایک ٹیم نے چھاپے مار کر گرفتار کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ گرفتار نوجوان اپنے آپ کو آرمی آفیسر ہونے کے ساتھ ساتھ وزیراعظم دفتر کا بھی عہدیدار جتلاتا تھا ۔ مذکورہ نوجوان سے مبینہ طور سو سے زیادہ دستاویزات ضبط کرنے کا بیان بھی سامنے آیا ہے ۔ ضبط کئے گئے دستاویزات کے بارے میں پتہ چلا ہے کہ بیرونی یونیورسٹیوں کی طرف سے اجرا کی گئی ڈاکٹری کی نقلی اسناد بھی شامل ہیں ۔ اس بنیاد پر مذکورہ نوجوان خود کو نیرو اسپیشلسٹ ظاہر کرتا تھا ۔ دستاویزات میں خالی کاغذ پر کئے گئے دستخط والے کچھ کاغذ کے صفحات بھی موجود پائے گئے ہیں ۔ عدالت کے بانڈ پیپر موجود ہونے کا بھی انکشاف کیا گیا ہے ۔ حیرانی کی بات ہے کہ مذکورہ شخص نے اس دوران اب تک چھے سات شادیاں بھی کی ہیں ۔ اس حوالے سے تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں ۔ بلکہ کہا جاتا ہے کہ شخص مذکور دھوکہ دہی کے ایک کیس میں کشمیر پولیس کو بھی مطلوب ہے ۔ اس کے خلاف کسی کیس میں پہلے ہی غیر ضمانتی وارنٹ جاری کئے ہوئے ہیں ۔ تاہم پولیس کو چکما دے کر اب تک گرفتار ہونے سے بچ گیا تھا ۔ ادھر یہ بھی بتایا گیا کہ گرفتار کئے گئے نوجوان کے کئی ملک دشمن عناصر کے ساتھ بھی رابطہ ہے ۔ مزید تفصیل سامنے آنے کا انتظار ہے ۔
وزیراعظم آفس سے خودساختہ روابط کے الزام میں گرفتاری کا یہ دوسرا واقعہ ہے ۔ اس سے پہلے کرن پٹیل نامی ایک شخص کو اسی الزام میں سرینگر سے گرفتار کیا گیا ۔ پٹیل کو بعد میں عدالت نے ضمانت پر رہا کیا ۔ اس کیس کا بھی بڑے پیمانے پر چرچا ہوا تھا ۔ یہ معلوم کرکے سخت افسوس ہوا تھا کہ پٹیل جیسے جعلی آفیسر کے کشمیر دوروں کے دوران کروڑوں روپے اس کی حفاظت اور تواضع پر خرچ کئے گئے تھے ۔ کشمیر جیسے حساس علاقے میں اس طرح سے داخل ہونے پر لوگوں نے حیرانی کا اظہار کیا تھا ۔ بلکہ اسے حفاطتی چوک بھی بتایا گیا تھا ۔ پٹیل نے کئی ضلعی آفیسروں کو شیشے میں اتارکر اپنی مطلب برآوری کے لئے استعمال کیا تھا ۔ یہ یہاں کے نظام میں بڑی کمزوری پائی جاتی ہے کہ مرکز سے آنے والے کسی بھی آفیسر کے لئے یہاں کے آفیسر بچھے جاتے ہیں ۔ ایسا بلا وجہ نہیں ہے بلکہ ایسے آفیسر اپنے لئے اعلیٰ عہدے تلاش کرنے کی فکر میں ہوتے ہیں ۔ منافع بخش عہدے حاصل کرنے کی غرض سے مرکز سے آئے عہدیداروں کی برح چڑھ کر خاطر تواضع کی جاتی ہے ۔ اسی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پٹیل نے کئی آفیسروں کی مدد سے کشمیر میں پرتپاک استقبال اور پروٹوکول کی سرکاری خدمات حاصل کی تھیں ۔ خیال تھا کہ اس میں مددگار بنے آفیسروں کو کڑی سزا دی جائے گی ۔ کیس ابھی عدالت میں پتہ نہیں کہ کب نتائج سامنے آئیں گے ۔ اس دوران اسی کیس سے ملتا جلتا ایک اور کیس سامنے آیا جس میں شمالی کشمیر کے ضلع کپوارہ سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان کو نقلی آفیسر ہونے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نوجوان کس قدر والدین کے باغی بن کر نئے طرز کے جرائم انجام دے رہے ہیں ۔ یہاں کئی سو نوجوان پہلے ہی مختلف الزاموں کی بنیاد پر جیلوں میں بند پڑے ہیں ۔ اس صورتحال سے کوئی سبق حاصل کرنے کے بجائے نوجوان پیسہ کمانے کی لالچ میں نئے اور حیران کن جرائم انجام دے رہے ہیں ۔ کپوارہ کے گرفتار کئے گئے نوجوان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بڑا رومان پسند شخص ہے اور کئی لڑکیوں کو دھوکہ دے کر ان سے شادیاں بھی رچا چکا ہے ۔ یہ ہمارے سماج کے اندر تباہی پھیلانے کا ایک نیا تماشہ ہے ۔ ایسی حرکات پر کڑی نگاہ نہ رکھی گئی تو لڑکیوں کا مستقبل تباہ ہونے کا شدید خطرہ ہے ۔ نقلی آفیسروں کے اس نئے رجحان سے نوجوان نسل کی ذہنی ساخت کا پتہ چلتا ہے ۔ اندازہ ہوتا ہے کہ ہم جس نسل کی پرورش کررہے ہیں اس کے خیالات انتہائی تباہ کن ہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ ایسے نوجوان اچھی صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں ۔ ایسا کارنامہ کسی قابل شخص سے ہی ممکن ہے ۔ کوئی کند ذہن نوجوان اس بات کی جرات نہیں کرسکتا ہے کہ خود کو اعلیٰ عہدہ دار ظاہر کرے ۔ تاہم اس بات کا اندازہ لگانا ضروری ہے کہ کوئی بھی جرم زیادہ وقت تک چھپایا نہیں جاسکتا ہے ۔ ایسے جرائم انجام دینے والے کسی نہ کسی مرحلے پر سامنے آہی جاتے ہیں ۔ اس ذریعے سے پہلے کسی نے ترقی کی ہے نہ آگے ایسا ممکن ہے ۔ نوجوانوں کو اپنی صلاحیتیں مثبت انداز میں کام میں لانی چاہیں ۔ کشمیری نوجوانوں کی بڑی تعداد پہلے ہی بندوق کے ہتھے چڑھ گئی ہے ۔ اس کے بعد ایسے نوجوانوں کی کثیر تعداد مبینہ طور منشیات کے دھندے کی نظر ہورہی ۔ بہت سے نوجوان جرائم پیشہ بن گئے ہیں ۔ اب ایک نوجوان کو جعلی آفیسر ہونے کی پاداش میں گرفتار کیا گیا ہے ۔ اس طرح سے جرائم کا جگہ پانا کوئی معمولی بات نہیں بلکہ مایوسی کی بات ہے ۔
