کسانوں کے عالمی دن کے موقعے پر خوشی اور مایوسی دونوں طرح کے رویے سامنے آئے ۔ سرکاری سطح پر یہ دن بڑے جوش وخروش سے منایا گیا ۔ مختلف جگہوں پر تقریبات کا انعقاد کیا گیا اور کسانوں کو ان کے کام کے حوالے سے جانکاری دی گئی ۔ دوسرے کئی عالمی دنوں کی طرح کسانوں کے دن کے موقعے پر بھی مختلف سرگرمیاں سامنے آئیں ۔ زرعی شعبے سے تعلق رکھنے والے محکموں کی طرف سے اس دن ورکشاپ منعقد کئے گئے اور کسانوں کو فراہم سہولیات کو منظر عام پر لایا گیا ۔ کسانوں کو یقین دہانی کرائی گئی کہ سرکار ان کی ترقی کے حوالے سے منصوبے تیار کررہی ہے ۔ اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ مرکزی سرکار نے کسانوں کو نقدی امداد فراہم کرنے کے علاوہ کئی اسکیموں کا بھی اعلان کیا ہے ۔ امدادی رقم براہ راست کسانوں کو ان کے بینک کھاتوں میں جمع کی جاتی ہے ۔ موجودہ سرکار کی کوشش ہے کہ مختلف اسکیموں کے تحت فراہم کی جانے والی امدادی کسی بھی درمیانہ داری کے بغیر سیدھے بینک کھاتوں میں جمع کرائی جائے ۔ اس کا فائدہ یہ ہورہاہے کہ لوگوں کو دفتروں کے چکر کاٹنا پڑتے ہیں نہ اپنے کیس حل کرانے کے لئے دلالوں کو رشوت دینا پڑتی ہے ۔ اس حوالے سے کسانوں کو بھی مختلف اسکیموں کے تحت سبسڈی اور دوسری امدادی رقم براہ راست ان کے بینک کھاتوں میں پہنچائی جاتی ہے ۔ اس سے کسانوں کو کافی سہولت میسر آئی ہے ۔ اس کے علاوہ سرکار کا کہنا ہے کہ کسانوں کو حاصل آمدنی میں اضافہ کیا جارہاہے اور زراعت سے ملنے والی ان کی آمدنی کو دوگنا کیا جارہاہے ۔ اس حوالے سے مبینہ طور کوششیں جاری ہیں ۔ دوسری طرف کسان اپنی کاشت کاری کے حوالے سے سخت مایوسی کا اظہار کررہے ہیں ۔ ان کو شکایت ہے کہ زرعی زمین پر سرمایہ کاری کا کوئی فائدہ نہیں مل رہاہے ۔ بلکہ الٹا بہت زیادہ خسارہ اٹھانا پڑتا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ زمین کی پیداواری صلاحیت میں آہستہ آہستہ کمی آرہی ہے ۔ کھادوں اور دوسری ضروریات کی چیزوں میں اضافہ ہونے کی وجہ سے یہ کسانوں کی دسترس سے باہر ہیں ۔ کسانوں کے پاس اتنی رقم نہیں ہے کہ وہ اس کا بار اٹھاسکیں ۔ دوسری طرف فصلوں کی قیمت میں اضافے کے بجائے گراوٹ آرہی ہے ۔ کئی وجوہات کی بنا پر کسانوں کو ان کی فصلوں کی بہت کم قیمت ملتی ہے ۔ اس وجہ سے کسان سخت مایوسی کا شکار ہیں ۔ آئے دن خود کشیوں کے جو واقعات سامنے آرہے ہیں ان میں کسانوں کی خود کشی کی بڑی سبب ان کے قرضے بتائے جاتے ہیں ۔ بہت سے کسان اپنے اہل خانہ سمیت خود کشی کرتے ہیں ۔ اس بارے میں استحصالی رجحان بتایا جاتا ہے ۔ سرکاری سطح پر یوم کسان کو بڑی اہمیت دی جارہی ہے ۔ اس کے برعکس کسان مایوسی کا اظہار کررہے ہیں ۔
جموں کشمیر میں پچھلے کچھ سالوں سے زرعی سرگرمیاں باغی بن تک محدود ہورہی ہیں ۔ زرعی زمینوں کو بڑی تیزی سے سیب اور دوسرے میوہ باغات میں تبدیل کیا جارہاہے ۔ اس وجہ سے دھان کی فصلوں کی کاشت محدود ہورہی ہے ۔ گندم ، سرسوں ، مکئی اور دوسری فصلوں کو اگانے کا رجحان بہت پہلے سے تنزلی کا شکار ہے ۔ ان فصلوں کو چند علاقوں میں ہی کاشت کیا جارہاہے ۔ اس کے بعد اب دھان کی فصل بھی محدود ہوکر رہ گئی ہے ۔ بلکہ بیشتر کسان ایسی فصلیں اگانے سے پرہیز کررہے ہیں ۔ ایسی فصلیں یقینی طور زندگی کی بحالی کے لئے ناگزیر ہیں ۔ لیکن بد قسمتی سے ایسی فصلیں کسانوں کے لئے وبال جان بن رہی ہیں ۔ کشمیر کے کسانوں کو دھان اور ایسی دوسری فصلیں اگانے سے بڑے پیمانے پر نقصان اٹھانا پڑرہا ہے ۔ پچھلے کچھ سالوں کے دوران موسم میں بھی ایسی تبدیلیاں آگئی ہیں جن سے فصلوں کے لئے ماحول انتہائی ناسازگار سمجھا جاتا ہے ۔ وقت اور ضرورت کے موقعوں پر بارشیں نہیں ہوتی ہیں ۔ آئے دن بادل پھٹنے اور اولے گرنے کے واقعات سامنے آرہے ہیں ۔ ایسے واقعات فصلوں کو تباہ کرنے کا باعث بن رہے ہیں ۔ سیلابوں کا شدید خطرہ رہتا ہے اور کسان ایسی قدرتی سرگرمیوں کا بڑے پیمانے پر شکار بن رہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ کسان اپنی پیداوار سے مایوس ہوکر اس کام کو ترک کررہے ہیں ۔ کسان اپنے کھیت میں کام کرکے کسی طور خود کفیل نہیں بن پاتا ہے ۔ اس کے بجائے محنت مزدوری کرکے بڑی آسانی سے اپنے اہل وعیال کا پالتا ہے ۔ مزدوروں کی یومیہ اجرت میں اضافہ ہورہاہے ۔ مزدوروں کو معمولی کام کے لئے زیادہ معاوضہ مل رہاہے ۔ مہمان مزدور کشمیر میں لاکھوں روپے کماتے ہیں ۔ اس کے برعکس کھیتوں میں کام کرنے والے کسان اپنی ذاتی پونجی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔ کسان اپنے کھیتوں میں کام کرنے کے بجائے دوسروں کے ہاں مزدوری کرنے کو فوقیت دیتے ہیں ۔ اس طرح سے انہیں ایک تو جمع پونجی خرچ نہیں کرنا پڑتی ۔ دوسرا آمدنی میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوتا ہے ۔ اس طرح کی صورتحال یقینی طور آنے والے وقت میں پورے خطے کے لئے تباہ کن ثابت ہوگی ۔ کھانے پینے کی اشیا کی پیداوار سے دور رہ کر مشکل وقت میں خود کو بچانا ممکن نہیں ہوگا ۔ اس تباہی کا باعث کسانوں کی مایوسی ہوگی ۔
