مسلسل خشک سالی کی وجہ سے عوامی حلقوں میں سخت مایوسی پائی جاتی ہے ۔ اس کے جو اثرات آنے والے ایام میں سامنے آسکتے ہیں لوگ ان کا اندازہ لگاچکے ہیں ۔ موسمیاتی ماہرین نے اشارہ دیا ہے کہ آئندہ دو ہفتوں کے دوران موسم کی جوں کی توں حالت برقرار رہ سکتی ہے ۔ رواں ماہ کے آخر تک موسم خشک رہنے کی پیش گوئی کی جارہی ہے ۔ دن گرم اور راتیں سخت سرد ہیں ۔ دن کو ملک کے دوسرے علاقوں کی نسبت گرمی پائی جاتی ہے ۔ اس کے بجائے راتوں کو درجہ حرارت معمول سے نیچے رہتا ہے ۔ دن اور رات کے درجہ حرارت میں اس طرح کی تفاوت تشویش ناک ہے ۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ جموں میں معمول کے بجائے دن قدرے سرد ہیں ۔ اس کے بجائے سرینگر میں دن کو کھلی دھوپ ہوتی ہے اور درجہ حرارت معمول سے زیادہ پایا جاتا ہے۔ اس کا فوری اثر سیاحتی سرگرمیوں پر دیکھا جاتا ہے ۔ ایسے سیاحتی مراکز جہاں کچھ ہفتے پہلے بڑی تعداد میں سیاح موج مستیاں کرتے نظر آرہے تھے آج ایسے تمام مقامات خاموش نظر آتے ہیں ۔ سیاح سخت مایوس ہوکر واپس جارہے ہیں ۔ نئے سیاح کم تعداد میں پہنچ رہے ہیں ۔ جن لوگوں نے نئے سال کے آغاز پر برف باری کی امید کے ساتھ کشمیر آنے اک پروگرام بنایا تھا وہ مایوس نظر آتے ہیں ۔ برف باری کے پیش نظر سیاحوں نے بڑے پیمانے پر سرینگر آنے کی خواہش ظاہر کی تھی ۔ لیکن خشک موسم نے ایسے سیاحوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ۔ اس کے علاوہ سرمائی کھیلوں کے بڑے پیمانے پر انعقاد ہونے جارہاتھا ۔ ایسے کئی کھیل مراکز مبینہ طور سوکھے پڑے ہیں جہاں اس طرح کی سرگرمیوں کا انعقاد ممکن تھا ۔ ڈل جھیل میں پانی کی سطح کم ہوگئی ہے ۔ یہاں پانی کی سطح جمی رہتی ہے اور کشتیوں کے نقل وحمل میں مشکلات پیش آرہی ہیں ۔ اس وجہ سے سیاحوں کی دلچسپی بھی کم ہوتی نظر آرہی ہے ۔ چشموں کا پانی بھی سوکھ گیا ہے ۔ اس وجہ سے لوگوں کو پینے کے پانی کی قلت محسوس ہورہی ہے ۔ خشک سالی سے شہر کی بیشتر سرگرمیاں متاثر ہورہی ہیں ۔ اس طرح کی صورتحال کو نظر انداز کرنا بہت مشکل ہے ۔ اس کے اثرات آنے والے دنوں میں بڑی شدت کے ساتھ سامنے آئیں گے ۔ کئی حلقوں کا خیال ہے کہ پورا سال اس طرح کی صورتحال قائم رہی تو سیاحتی سرگرمیوں کے مزید متاثر ہونے کا اندیشہ ہے ۔
خشک سالی کے اثرات پورے برصغیر میں پائے جاتے ہیں ۔ عالمی سطح پر آلودگی بڑھ جانے سے موسم نے نیا رخ اختیار کیا ہے ۔ اس حوالے سے سخت تشویش کا اظہار کیا جارہاہے ۔ فضا میں کاربن گیسوں کی مقدار میں اضافے کو دیکھ کر پچھلی نصف صدی سے پوری دنیا کو خبردار کیا جارہاہے ۔ اس بات پر زور ڈالا جارہاہے کہ کاربن گیسوں کی پیداوار کو قابو میں کرکے فضا کو آلودہ ہونے سے بچایا جائے ۔ لیکن کوئی خاص تبدیلی دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے ۔ یہ بڑی مایوس کن بات ہے کہ خبردار کرنے کے باجود لوگ خاص طور سے وہ تمام حلقے جو اس کے بڑے ذمہ دار سمجھے جاتے ہیں ہٹ دھرمی دکھا رہے ہیں ۔ وہ کاربن گیس بڑھانے کی سرگرمیوں کو کم کرنے پر آمادہ نہیں ہیں ۔ اس دوران تابکاری کے اثرات بھی سامنے آئے ہیں ۔ شورش زدہ علاقوں خاص طور سے یوکریں ، غزہ اور دوسرے چھوٹے شہروں میں گولہ بارود استعمال کرنے سے مبینہ طور فضائی آلودگی میں خطرناک حد تک اضافہ ہورہاہے ۔ ایسی جنگی سرگرمیوں کی اجازت دینے اور اس کی حمایت کرنے والے جانتے ہیں کہ وہ خود یا ان کے ممالک کے لوگ اس کے برے اثرات سے بچ نہیں سکتے ۔ اس کے باوجود وہ ایسی کاروائیوں سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ۔ یہی وجہ ہے ک موسم مسلسل خشک سالی سے متاثر ہے اور برف و باراں کے کوئی امکان نظر نہیں آتے ۔ پچھلے سال کے مقابلے میں اس سال بارشیں بھی کم مقدار میں ہوئیں ۔ یہی وجہ ہے کہ زیر زمین پانی کی سطح بھی کم ہورہی ہے ۔ یہ بڑی تشویش کی بات ہے کہ ہم اپنے سب سے بڑے اور بہت ہی اہم قدرتی وسیلے سے محروم ہورہے ہیں ۔ کشمیر کی خوبصورتی اور یہاں کی فصلیں براہ راست قدرتی بارش اور برف پر انحصار رکھتی ہیں ۔ بارش یا برف نہ ہوئی تو فصلوں اور میوہ باغات کے تباہ ہونے کا اندیشہ ہے ۔ بلکہ کشمیر کے باغات اور جنگلات کے صحراہ میں بدل جانے کے آثار محسوس کئے جارہے ہیں ۔ اس کا اثر ٹورازم انڈسٹری پر پڑسکتا ہے ۔ پچھلے دو تین سالوں کے دوران بڑی تعداد میں سیاح کشمیر وارد ہوئے ۔ کہا جاتا ہے کہ سیر سپاٹے کے خواہش مندوں نے سویزر لینڈ کے بجائے گوگل میپ پر کشمیر کے سیاحتی مقامات کی تلاش زیادہ کی ۔ اس طرح کی سرگرمی پہلی بار سامنے آئی ۔ موسم نے اپنا رخ نہ بدلا اور سیاح دوست نہ بن سکا تو صورتحال بڑی مایوس کن ہوگی ۔ بڑی مشکل سے سیاحتی سرگرمیاں پٹری پر آئی ہیں ۔ ان کے اثر انداز ہونے کا شدید خطرہ پایا جاتا ہے ۔ بہت سے ملکی اور غیر ملکی ایجنسیاں کشمیر میں سیاحتی سرگرمیوں کو بڑھاوا دینے کی کوششوں میں لگی تھیں ۔ خیال تھا کہ بہت سے حلقے یہاں آکر ایسی سرگرمیوں کو فروغ دیں گی ۔ اب ایسی امیدیں دم توڑنے لگی ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسی صورتحال کا اندازہ لگاکر نیا روڑ میپ تیار کیا جائے ۔
