ایگریکلچر یونیورسٹی کے ایک اجلاس میں کیڑے مار ادویات کے چھڑکائو کے حوالے سے صلح مشورہ کیا گیا ۔ اس حوالے سے معلوم ہوا کہ اسٹینڈنک ایوالویشن کمیٹی کے 40 ویں اجلاس میں رواں سال کے دوران مختلف بیماریوں سے تحفظ کے لئے کیڑے مار ادویات کے چھڑکائو کے شیڈول کو حتمی شکل دینے پر غور و خوض کیا گیا ۔ اجلاس میں یونیورسٹی کی اعلیٰ قیادت اور کئی شعبوں کے سربراہوں نے شرکت کی ۔ یہ بڑی حوصلہ افزا بات ہے کہ یونیورسٹی حکام کسانوں اور باغبانوں کی مشکلات کا ازالہ کرنے کے لئے فکر مند ہیں ۔ باغات میں کام کاج اور ادویات کا چھڑکائو شروع ہونے سے پہلے یونیورسٹی کی طرف سے کسانوں کو بروقت مشورہ فراہم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اس سے پہلے اس طرح کے ایشوز کے حوالے سے بڑی لاپرواہی سے کام لیا گیا ۔ بدقسمتی سے یہاں ایسا ماحول نہیں پایا جاتا تھا جہاں مقامی کسانوں اور باغبانوں کی ضروریات کا خیال رکھ کر انہیں صحیح مشورے فراہم کئے جاتے ۔ بلکہ تحقیقاتی اداروں کی سخت لاپرواہی کی وجہ سے باغبانوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ تحقیقاتی کام سے جڑے اسکالرز کی بھی کوشش رہی کہ باہر جاکر اپنا کام کریں اور محض سند حاصل کرنے کے لئے آسان اور غیر متعلق موضوعات کا انتخاب کیا گیا ۔ کشمیر میں جب بڑے پیمانے پر دھان اور دوسری فصلوں کی کاشت ہوتی تھی تو کسی بھی موقعے پر کسانوں کو جدید طریقوں سے باخبر کیا گیا نہ دھان کی کاشت کے لئے بنیادی اقدامات سے واقفیت دلائی گئی ۔ اس دوران دھان کی فصل میں کئی طرح کی بیماریاں لگ گئیں اور یونیورسٹی کی طرف سے بیماریاں کنٹرول کرنے یا فصل میں اضافہ کرنے کے لئے کوئی بہتر کام نہیں کیا گیا۔ یونیورسٹی کے پاس ایسے کئی پروجیکٹ اور زرعی اراضی کے وسیع احاطے ہیں جہاں اس حوالے سے تجربے کئے جاسکتے تھے ۔ بہ ظاہر وہاں اس طرح کے کچھ پروجیکٹوں پر کام کیا گیا لیکن یہ محض دکھاوے کا کام تھا جس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہ آیا ۔ بلکہ لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے تھے کہ ایسی سرکاری زمینوں میں پنیری لگانے سے فصل کاٹنے اور جمع کرنے تک کا سارا کام ٹھیکہ داروں کی وساطت سے ہوتا تھا ۔ اس کی نگرانی کے لئے وہاں کچھ چپراسی اور چوکیدار ہوتے تھے ۔ کبھی بھی یونیورسٹی حکام یا ماہرین زراعت کو وہاں نہیں دیکھا گیا ۔ باغات خاص طور سے سیبوں کی کاشت اور فصل کے حوالے سے بھی طویل عرصے تک لاپرواہی بھرتی گئی ۔ ایسے باغات کی بہتری کے لئے کسی بھی سرکاری ادارے نے کوئی معاونت نہیں کی ۔ اب پچھلے کچھ عرصے سے متعلقہ حکام ذمہ داری کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔ معلوم نہیں کہ ان کے کام کا یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا ۔ ادھر صورتحال یہ ہے کہ مسلسل خشک سالی کی وجہ سے کسان اور باغ مالکان سخت تشویش سے دوچار ہیں ۔ اپنے باغات اور فصل کو خشک سالی سے بچانے کے لئے کیا روڈ میپ اختیار کیا جائے ایگریکلچر اور ہارٹی کلچر سے متعلق تمام ادارے خواب غفلت میں ہیں ۔ اس حوالے سے تاحال کوئی رہنمائی یا مشورے سامنے نہیں آئے ۔ تازہ اطلاع یہ ہے کہ کیڑہ مار ادویات کے چھڑکائو کا شیڈول تیار کیا جارہاہے ۔ اصل صورتحال کو نظر انداز کرکے غیر متعلق کام پر وقت ضایع کیا جارہاہے ۔
میوہ باغات کو بیماریوں سے بچانے کے لئے ادویات کا چھڑکائو لازمی ہے ۔ اس سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ تاہم یہ بات بڑی اہم ہے کہ متعلقہ کسان یونیورسٹی سے دئے جانے والوں مشوروں سے زیادہ ان مقامی دکانداروں پر بھروسہ کرتے ہیں جو یہ ادویات فراخت کرتے ہیں ۔ یہی دکاندار شیڈول تیار کرکے کسانوں کو ایسی ادویات فراہم کرتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ایگریکلچر یونیورسٹی اور نہ ہی ہارٹیکلچر ڈپارٹمنٹ باغ مالکان کے اندر یہ سوچ قائم کرسکا کہ وہ ان کے مشوروں پر اعتماد کرکے عمل کریں ۔ بلکہ عام تاثر یہی ہے کہ یہ سب لوگ سرکاری ملازم ہیں جو محض اپنی تنخواہ کے لئے کام کرتے ہیں ۔ ان میں ایسے کوئی ماہر نہیں جو کسانوں کے مسائل سمجھنے کی کوششکرکے ان مسائل کو حل کرنے کا مشورہ دے سکیں ۔ یہی وجہ ہے کہ باغ مالکان ادویات فروخت کرنے والے دکانداروں پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں ۔ بلکہ باغوں میں کیا جانے والا ہر کام اسی طریقے سے انجام پاتا ہے ۔ بہت کم ایسا دیکھا گیا کہ کسی ماہر سے مشورہ کرکے اس کے مشوروں کے مطابق کام کیا جائے ۔ یہ باغ بانوں کی لاپرواہی ہے یا سرکاری اداروں پر عدم اعتماد کا نتیجہ ہے ۔ اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔ تاہم یہ بات عجیب ہے کہ ایک ایسے مرحلے پر جبکہ کسانوں کو خشک سالی کا سامنا ہے ۔ اس حوالے سے بات کرنے کے بجائے متعلقہ ادارے ادویات کے استعمال اور شیڈول کے لئے اجلاس کررہے ہیں ۔ کسانوں نے اپنے باغات میں زیر زمین پانی حاصل کرنے کے لئے کنویں کھودنے شروع کئے ہیں ۔ حکام اس میں مدد دینے یا مشورہ دینے کے لئے موجود نہیں ۔
