پچھلے دنوں اننت ناگ میں طبی محکمے نے انتظامیہ کی مدد سے ایک ستھر سالہ جعلی ڈاکٹر کو گرفتار کیا ۔ گرفتار کئے گئے ڈاکٹر کے خلاف الزام ہے کہ اس نے نقلی اسناد تیار کرکے خود کو رجسٹرڈ ڈاکٹر ظاہر کیا اور کئی نجی کلنکوں میں مریضوں کا علاج کرنا شروع کیا ۔ اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ اننت ناگ کے علاوہ سرینگر کے حول علاقے اور گاندربل میں بھی علاج و معالجہ کاکام انجام دیتا تھا ۔ یہ ہوشربا خبر اس وقت سامنے آئی جب سوشل میڈیا پر اس حوالے سے سٹنگ آپریشن انجام دینے کا دعویٰ کیا گیا ۔ یہ خبر سامنے آتے ہی محکمہ صحت نے کاروائی کرتے ہوئے ملزم کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے ان نجی کلنکوں پر تالے چڑھائے جہاں وہ مریضوں کا علاج کرنے میں کئی سالوں سے مصروف تھا ۔ سوشل میڈیا پر دعویٰ کیا گیا کہ ملزم ڈاکٹر کے نسخوں پر جو رجسٹریشن نمبر درج ہے وہ کسی اور ڈاکٹر کے نام سے منظور ہوا ہے ۔ ملزم ڈاکٹر نے چندی گڑھ کے معروف طبی تعلیم کے ادارے سے ٹریننگ حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے جو کہ سرے سے فرضی دعویٰ ہے ۔ ڈاکٹر نے مبینہ طور اپنی دھوکہ دہی اور لوگوں کو ٹھگنے کا اعتراف کیا ہے ۔ سٹنگ آپریشن انجام دینے والوں کا کہنا ہے کہ ملزم داکٹر نے رشوت دینے اور آئندہ سے علاج معالجے کا کام ترک کرنے کا وعدہ کیا تھا ۔ تاہم وہ اس کے جھانسے میں نہ آئے اور بھانڈہ پھوڑ دیا ۔ جس کے بعد محکمہ صحت اور مقامی انتظامیہ نے بڑی پھرتی دکھاکر کاروائی عمل میں لائی ۔ آگے جاکر ڈاکٹر کے خلاف درج کیا گیا کیس کونسی ٹرن لیتا ہے وقت آنے پر معلوم ہوگا ۔
محکمہ صحت کی طرف سے جعلی ڈاکٹر کے خلاف کی گئی کاروائی پر لوگوں نے اطمینان کا اظہار کیا ہے ۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ کسی ایک ملزم کے خلاف کاروائی کافی نہیں ہے ۔ ان کا الزام ہے کہ اس طرح کے بوگس اور دھوکہ دہی کے کام میں بہت سے لوگ مشغول ہیں ۔ لیکن کسی وجہ سے ان کے خلاف کاروائی عمل میں نہیں لائی جاتی ہے ۔ پچھلے طویل عرصے سے کشمیر میں نجی ہسپتالوں اور پرائیویٹ کلنکوں کے حوالے سے بڑے پیمانے پر شور کیا جارہاہے کہ مریضوں کو لوٹنے کے سوا کوئی بہتر کام انجام نہیں پاتا ہے ۔ یہاں تک کہ سرکاری ہسپتالوں میں موجود ڈاکٹر اور دوسرے اہلکار مریضوں کو بڑے پیمانے پر استحصال کررہے ہیں ۔ یہ ہسپتال قتل گاہوں اور ڈاکٹر قصائیوں کا روپ دھار کر مریضوں کے ساتھ علاج معالجے کے نام پر کھلواڑ کررہے ہیں ۔ لیکن بات ایک کان سے سنی اور دوسرے کان سے چھوڑ دی جاتی ہے ۔ لوگ تھک ہار کر بیٹھ گئے اور نجی ہسپتالوں کا رخ کرنے پر مجبور ہورہے ہیں ۔ جہاں ان کے ساتھ بڑے پیمانے پر دھوکہ دہی ہورہی ہے ۔ یہ بات بڑی عجیب ہے کہ جس میڈیا کارکن نے جعلی ڈاکٹر کی کارستانیاں سامنے لائیں اور انتظامیہ نے وقت ضایع کئے بغیر کاروائی انجام دی ۔ اسی میڈیا پرسن نے اس سے پہلے کئی سرکاری آفیسروں کے ہاتھوں انجام دئے فراڈ کی کہانیاں منظر عام پر لائیں۔کہا جاتا ہے کہ ایسا کام انجام دینے والوں کے خلاف تاحال کوئی کاروائی نہیں ہوئی ۔ یہ ضروری نہیں کہ ایسی ہر کہانی سچائی پر مبنی ہو ۔ تاہم تحقیقات کرکے صحیح اور غلط کا ادراک کیا جانا چاہئے ۔لوگوں کو حقیقت اور انتظامیہ کی عوام کے ساتھ دلچسپی کا اظہار ہونا چاہئے ۔ انتظامیہ نے ایک ستھر سالہ جعلی ڈاکٹر کے خلاف کاروائی کرکے یقینی طور بڑا کارنامہ انجام دیا ۔ تاہم اس بات پر سوالات اٹھ رہے ہیں کہ ایسی کاروائیوں کے دوران تفریق کیوں کی جاتی ہے ۔ جعلی ڈاکٹر واحد مجرم نہیں جو سماج کے لئے ایک ناسور بن گیا ہے ۔ بلکہ یہاں وسیع پیمانے پر اس طرح کے کاروبار کو انجام دیا جارہاہے ۔ ایسا کام انجام دینے میں جو افراد ملوث ہیں بہت سے سرکاری اہلکار ان سے مل جل کر لوگوں کے ساتھ زیادتیاں کررہے ہیں ۔ ایسے افراد کوئی خود ساختہ سماجی کارکن ہوں یا سرکاری اہلکار سب کے خلاف یکسان طور نمٹنے کی ضرورت ہے ۔ سرکار آئے روز چور دروازوں سے تعینات کئے گئے ملازموں کے خلاف کاروائی کرنے کی دھمکیاں دے رہی ہے ۔ لیکن ان ڈاکٹروں اور دوسرے لوگوں کے خلاف ہاتھ نہیں اٹھایا جاتا جو عوام سے دن دہاڑے پیسے لوٹ رہے ہیں ۔ پرائیویٹ لیبارٹریوں کے حوالے سے قانون کا کوئی اطلاق نہیں ہے ۔ ڈاکٹر مریضوں کو مخصوص دکانوں سے ادویات خریدنے اور اپنی من پسند لیبارٹریوں سے ٹیسٹ کرانے پر مجبور کرتے ہیں ۔ اس طرح کے استحصال سے لوگوں کو نجات دلانا ضروری ہے ۔ اسی طرح ان سرکاری اہلکاروں کے خلاف کاروائی ہونی چاہئے جن پر الزام ہے کہ اپنی حاکمیت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ناجائز کاموں میں ملوث ہیں ۔ ایسے آفیسر سرکار کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں ۔ عوام سے رابطہ بڑھانے اور ان کی عروضات سننے کا جو طریقہ انتظامیہ نے بنایا ہے اس سے لوگوں کو بڑا حوصلہ مل رہاہے ۔ تاہم اس حوالے سے مجرموں کے خلاف کاروائی بے حد ضروری ہے ۔ ایسی کاروائی کسی کی چاہت کے بجائے رائج قانون کے مطابق ہونی چاہئے ۔
