پولیس کے دو اہلکاروں کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان کے پاس معلوم آمدنی سے بڑھ کر اثاثے پائے گئے ہیں ۔ پچھلے دنوں انٹی کورپشن بیورو نے جموں میں کئی جگہوں پر چھاپہ ڈالنے کے بعد اس بات کا انکشاف کیا کہ دو اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے ۔ بیورو دفتر کو خفیہ ذرایع سے معلوم ہوا تھا کہ دونوں اہلکاروں نے ایسے اثاثے جمع کئے ہیں جو ان کی آمدنی سے کہیں زیادہ ہیں ۔ غیر متناسب اثاثوں کی موجودگی کا پتہ چلنے کے بعد تحقیقات شروع کی گئی ۔ کئی اہم معلومات حاصل ہونے کے بعد دونوں اہلکاروں کے گھروں اور دوسرے مشکوک جگہوں پر چھاپے ڈالے گئے ۔ انٹی کورپشن بیورو کے ذمہ داروں نے تصدیق کی ہے کہ چھاپے ڈالنے کے دوران پتہ چلا ہے کہ دونوں پولیس اہلکاروں نے اپنی پوسٹنگ کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی آمدنی سے بڑھ کر اثاثے بنائے ہیں ۔ جس کے بعد دونوں ملزموں کے خلاف قانونی کاروائی عمل میں لائی گئی ۔ اس حوالے سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ ان کے خلاف مقامی پولیس اسٹیشن میں باضابطہ ایف آئی آر درج کی گئی ۔ مزید کاروائی یقینی ہے اور اندازہ ہے کہ بہت جلد ان اثاثوں کے لئے حاصل کی گئی رقوم کی اصلیت معلوم ہوگی ۔
جموں کشمیر میں سرکاری ملازموں کا آمدنی سے زیادہ اثاثے بنانے کی خبر کوئی انکشاف نہیں ہے ۔ عوام کے لئے یہ کوئی نئی اطلاع نہیں ہے ۔ لوگ جانتے ہیں کہ ملک کے باقی حصوں کے ملازمین کے برعکس جموں کشمیر کے ملازم جائدادیں بنانے میں سب سے آگے ہیں ۔ پہلے سیاست دان اس معاملے میں سخت بدنام تھے ۔ بعد میں ملازموں کا ایک بڑا طبقہ اثاثے بنانے کی دوڑ میں شامل ہوگیا ۔ یہاں تک کہ پولیس پر بھی انگلیاں اٹھائی جانے لگیں ۔ پولیس کا اصل کام قانون کا نفاذ ہے ۔ جب پولیس ہی غیر قانونی کام کرنے لگے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ لاقانونیت کس حد تک بڑھ گئی ہے ۔ کئی بار حکومت اور انتظامیہ کی طرف سے یقین دہانی کرائی گئی کہ اس طرح کے لوٹ کھسوٹ کو ختم کیا جائے گا ۔ ملازموں کی طرف سے کئے جانے والے استحصال اور رشوت لینے کے چلن پر قدغن لگائی جائے گی ۔ اس غرض سے انسداد رشوت ستانی کے کئی ادارے بنائے گئے ۔ پولیس کے انٹی کورپشن کے نام پر کئی ذیلی ادارے وجود میں لائے گئے ۔ بعد میں آزاد اور خود مختار ادارے قائم کئے گئے تاکہ ایسے لوٹ کھسوٹ کو ختم کیا جاسکے ۔ لیکن اس حوالے سے کوئی نمایاں کام انجام نہیں دیا جاسکا ۔ سیاسی مداخلت اور دوسرے کئی وجوہات کی بنا پر سرکاری دفتروں میں رشوت ختم کرنا دور کی بات اس کو کم بھی نہیں کیا جاسکا ۔ معلوم ہوا کہ جو ادارے رشوت ستانی کو ختم کرنے کے نام پر کام کرتے ہیں وہاں درون خانہ رشوت کا بازار گرم ہے ۔ ایسے ادارے رشوت لینے والوں کے ساتھ مل کر کام کرنے لگے اور ان کی مدد سے اپنی آمدنی میں اضافہ کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں ۔ یہاں تک کہ ان اداروں پر بھروسہ اٹھ گیا اور رشوت پر قابو پانا ناممکن قرار دیا گیا ۔ اس حوالے سے یہ بات بڑی عجیب ہے کہ ملازم بلا خوف ہوکر ایسا ناجائز کام انجام دے رہے ہیں ۔ پچھلے چار سالوں کے دوران کئی ایسے ملازموں کو نوکری سے برطرف کیا گیا جن کے خلاف رشوت لینے کے الزامات ہیں ۔ ایسے ملازموں جن کے خلاف رشوت لینے کے حوالے سے مقدمات درج ہیں ان کی نوکری ختم کرکے انہیں گھر بھیجدیا گیا ۔ اس کے ابوجود بہت سے ملازم اب بھی رشوت لینے سے باز نہیں آتے ہیں ۔ چپراسی سے لے کر بڑے بڑے آفیسروں کو رنگے ہاتھوں رشوت لیتے ہوئے پکڑا گیا ۔ اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ ایسے رشوت خور سرکاری ملازم اپنی ہی انتظامیہ کو چیلنج کرتے ہیں اور قانون شکنی کرتے رہتے ہیں ۔ رشوت ستانی کے اس ماحول میں یقینی طور انتظامیہ کی بالادستی قائم نہیں رکھی جاسکتی ہے ۔ ایک مرحلے پر جموں کشمیر ریاست پورے ملک میں رشوت کو بڑھاوا دینے والی نمبر ون ریاست تھی ۔ اب اندازہ تھا کہ اس معاملے میں کمی آئے گی اور لوگ اپنی نوکریوں کو بچانے کے لئے رشوت لینے سے پرہیز کریں گے ۔ لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آتا ہے ۔ یہاں تک کہ پولیس کے اپنے کارکن رشوت لینے میں ملوث پائے گئے ۔ اس حوالے سے پولیس نے کاروائی کرتے ہوئے لوگوں میں اپنی قدر بڑھائی ہے ۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ پولیس نے اپنی صفوں میں موجود کارکنوں کو دبوچ لیا ۔ بلکہ اس سے پہلے بھی ایسے کئی اہلکار اور آفیسر پکڑے گئے ۔ لیکن کام کو ایسے وسیع پیمانے پر نہیں کیا گیا جس کی ضرورت ہے ۔ غیر متناسب اثاثے محض پولیس کے چند کارکنوں کی کارستانی نہیں ۔ بلکہ اس حمام میں تمام ہی سرکاری اہلکار ننگے ہیں ۔ ملازم ہر سال اپنے اثاثوں کی تقصیل سرکار کو فراہم کرتے ہیں ۔ اس معاملے میں بھی ہیر پھیر سے کام لیا جاتا ہے ۔ شاید ہی کوئی ملازم اپنے اثاثوں کے گوشوارے سچائی سے بھرتا ہوگا ۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ اس معاملے میں فراخدلی سے کام لے کر کسی کی پکڑ نہیں ہوتی ۔ قانون کا نفاذ یکسان طریقے سے ہونا چاہئے ۔
