بی جے پی جموں کشمیر کے صدر رویندر رینہ نے اننت ناگ راجوری نشست پر پولنگ موخر کرنے میں پارٹی کے رول کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ فیصلہ الیکشن کمیشن کا اپنا فیصلہ ہے ۔ رینہ نے کہا کہ بی جے پی یا موجودہ سرکار کی طرف سے اس سلسلے میں کوئی دبائو نہیں ڈالا گیا ۔انہوں نے کہا کہ الیکشن میں حصہ لینے والے کئی امیدواروں نے الیکشن کمیشن سے پولنگ ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا ۔ ناموافق موسمی حالات کے پیش نظر ووٹ ڈالنے کی تاریخ میں تبدیلی کرکے نئے تاریخ کا اعلان کیا گیا ۔ اس دوران الیکشن میں حصہ لینے والے اپوزیشن کے کئی امیدواروںنے الزام لگایا کہ الیکشن ملتوی کرنے کے پیچھے بی جے پی کا ہاتھ ہے ۔ تاہم بی جے پی اس طرح کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو حق بجانب قرار دے رہی ہے ۔ یاد رہے کہ سخت بارشوں اور کئی بالائی علاقوں میں برف گرنے کے بعد الیکشن کمیشن نے اعلان کیا کہ جنوبی کشمیر کی واحد نشست کے لئے ووٹ ڈالنے کی تاریخ میں تبدیلی کی جارہی ہے ۔ اب یہاں 7 مئی کے بجائے 25 مئی کو ووٹ ڈالے جارہے ہیں ۔ اس اعلان پر پی ڈی پی اور این سی کی طرف سے سخت مایوسی کا اظہار کیا گیا ۔ دونوں جماعتوں نے خراب موسم کو ایک بے جا بہانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ موسم اس قدر خراب نہیں کہ الیکشن میں کسی طرح سے رخنہ انداز ہوجائے ۔ اس لئے ووٹنگ کی تاریخ موخر کرنا بلا وجہ ہے ۔
الیکشن کمیشن سے جن سیاسی حلقوں نے مبینہ طور رابطہ کرکے انتخابات ملتوی کرنے کی درخواست کی ان میں اپنی پارٹی ، پیوپلز کانفرنس اور آزاد ڈیموکریٹک پارٹی کے علاوہ کئی آزاد امیدوار شامل بتائے جاتے ہیں ۔ اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ الیکشن کمیشن سے کہا گیا کہ ایسے امیدوار ناموافق موسمی صورتحال کی وجہ سے الکشن مہم چلانے سے قاصر ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلسل بارشوں اور کئی جگہوں پر برف گرنے کی وجہ سے لوگوں سے ووٹ مانگنے کی مہم چلانا ناممکن ہورہاہے ۔ اس مطالبے کا جائزہ لیتے ہوئے الیکشن کمیشن کی پول باڈی نے الیکشن ملتوی کرکے یہاں ووٹ ڈالنے کی نئی تاریخ مقرر کی ہے ۔ اس طرح سے اب اننت ناگ راجوری نشست کے لئے پولنگ 25 مئی کو ہوگی ۔ یاد رہے کہ اس نشست کے لئے فارم بھرنے اور ان کی جانچ پڑتال کا کام پہلے ہی مکمل کیا جاچکاہے ۔ یہاں 20 امیدوار میدان میں بتائے جاتے ہیں جو ووٹ حاصل کرنے کے لئے سر توڑ کوشش کررہے ہیں ۔ ان امیدواروں میں این سی کے میاں الطاف ، پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی اور اپنی پارٹی کے ظفر اقبال منہاس شامل ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ الیکشن میں ان ہی تین امیدواروں کے درمیان اصل مقابلہ ہے ۔ یاد رہے کہ بی جی پی نے اننت راجوری نشست کے لئے اپنا کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا ہے ۔ پارٹی چاہتی ہے کہ اس کا کوئی ہم خیال امیدوار کامیاب ہوجائے ۔ اسی طرح آزاد ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے پہلے غلام نبی آزاد کے اس نشست کے لئے الیکشن لڑنے کا اندازہ لگایا جارہا تھا ۔ لیکن آخر موقعے پر انہوں نے الیکشن میں حصہ لینے سے انکار کیا اور کسی دوسرے امیدوار کو میدان میں اتارا ۔ اسی طرح کانگریس ٹکٹ پر بھی کوئی امیدوار الیکشن نہیں لڑرہاہے بلکہ پارٹی نے این سی امیدوار کو حمایت دینے کا اعلان کیا ہے ۔ اس نشست پر پچھلے الیکشن میں این سی کے حسنین مسعودی کامیاب قرار دئے گئے تھے اور وہی پارلیمنٹ میں یہاں کی نمائندگی کررہے تھے ۔ انہوں نے کئی بار وہاں بحث میں حصہ لیتے ہوئے کشمیر کی نمائندگی کی ۔ تاہم نئے لوک سبھا انتخابات کے لئے این سی نے مسعودی کو منڈیٹ دینے سے انکار کیا اور ایک نئے امیدوار کو آزمانے کا اعلان کیا ۔ پچھلے انتخابات میں اس نشست کے لئے سب سے کم ووٹ پڑے تھے ۔ بلکہ کئی علاوہ میں ووٹنگ نہ ہونے کے برابر ہوئی تھی ۔ تاہم نئی حدبندی کے بعد اب اس نشست کے لئے دس گیارہ لاکھ ووٹر رجسٹر کئے جاچکے ہیں ۔ انتظامیہ امید کررہی کہ رواں انتخابات میں لوگ بڑے پیمانے پر ووٹ ڈالیں گے ۔ اس دوران الیکشن کمیشن نے مبینہ طور کئی سیاسی حلقوں کی مانگ اور مقامی انتظامیہ کے کہنے پر ووٹنگ کی نئی تاریخ مقرر کی ۔ اس اعلان سے اپوزیشن حلقوں میں مایوسی پائی جاتی ہے ۔ تاہم حتمی فیصلہ الیکشن کمیشن کا ہی مانا جائے گا اور اسی پر عمل ہوگا ۔ ادھر موسم میں مسلسل گڑ بڑ پایا جاتا ہے ۔ اگرچہ پچھلے دو دنوں کے دوران بارش نہیں ہوئی ۔ تاہم موسم ابر آلود رہا ۔ اس وجہ سے یقینی طور سیاسی سرگرمیوں میں زیادہ ابھار دیکھنے کو نہیں مل رہاہے ۔ ایسی موسمی صورتحال کے پیش نظر کئی حلقوں کا خیال تھا کہ ووٹنگ کے عمل میں سستی دیکھنے کو ملے گی ۔ مئی کے اوائل میں پولنگ میں جوش و خروش نظر آنے کے کم امکانات تھے ۔ اس صورتحال کا اندازہ لگاتے ہوئے لوکل انتظامیہ کی طرف سے مشورہ حاصل کرنے اور اپنے طور حالات کا جائزہ لینے کے بعد پولنگ اب 25 مئی کو ہوگی ۔ نئی تاریخ پر کس قدر جوشو خروش دیکھنے کو ملے گا یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔تمام امیدوار کوششوں میں لگے ہوئے ہیں اور عوام پر زور دے رہے ہیں کہ اپنے ووٹ کا ضرور استعمال کریں ۔ اس وجہ سے ماضی کے مقابلے میں بھاری ووٹنگ ہونے کا اندازہ ہے ۔
