چٹان ویب ڈیسک
آئیووا: ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ماں کا دماغی تناؤ اور پیچیدگیاں اگلی بلکہ اس سے اگلی نسل تک بھی منتقل ہوسکتی ہیں۔
جامعہ آئیووا کے سائنسدانوں نے اس کے لیے کیچووں (راؤنڈ ورم) کو تختہ مشق بنایا گیا ہے۔ انہوں نے دیکھا کہ جب ان کیڑوں کو گرمی کے تناؤ کا سامنا ہوتا ہے تو اس کے نقوش ان کے جین تک پہنچتے ہیں اور وراثت کے تحت نہ صرف ان کی اگلی نسل (اولاد) بلکہ اس کی بھی اگلی نسل تک جا پہنچتے ہیں۔
یونیورسٹی میں شعبہ حیاتیات کی پروفیسر وینا پرلاد نے بتایا کہ کسی خطرے، مثلاً درجہ حرارت میں تبدیلی کی صورت میں کیچوے کا فوری احساس کرتے ہیں کیونکہ اس سے انہیں نقصان یا موت کا سامنا ہوسکتا ہے۔ خطرے میں وہ سیروٹونِن خارج کرتے ہیں جو مرکزی اعصابی نظام تک جاتا ہے اور وہاں سے غیربارآور انڈوں تک جاپہنچتا ہے۔ یہاں وہ انڈوں میں جمع ہوجاتا ہے اور ازخود بچوں تک منتقل ہوجاتا ہے۔
واضح رہے کہ یہ کیچوے بہت حد تک انسانی جین رکھتے ہیں اور ان پر تحقیق کا اطلاق ایک حد تک انسانوں پر ہوسکتا ہے۔ ایک مثال 1945 میں ہالینڈ کے قحط سے ہوتے ہیں جسے ’ڈچ ہنگرونٹر‘ کا نام دیا گیا تھا۔ بھوک اور قحط سے مائیں ذیابیطس اور ذہنی امراض کی شکار ہوئی تھیں اور یہ کیفیت ان کی اولاد میں بھی دیکھی گئی تھی۔
اس طرح ذہنی تناؤ یا جسمانی ایذا کی یادداشت اتنی گہری ہوتی ہے کہ وہ جین میں ثبت ہوکر اگلی نسلوں تک جاپہنچتی ہے۔ اسی طرح خود جین کی یادداشت بھی ہوتی ہے اورماحولیاتی آلودگی سے بھی ان پر یادداشت ثبت ہوجاتی ہے۔ پھر یہ نسل خیزی کے دوران دوسری نسل تک جاتا ہے۔
اسی طرح کیچووں میں ذہنی تناؤ کی معلومات ان کے انڈوں تک جاتی ہے جہاں ایک پروٹین ایچ اس ایف ون میں منتقل ہوجاتی ہے۔ یہ پروٹین اگلی نسلوں تک کئی تبدیلیوں کی وجہ بنتا ہے۔ اس لیے اگر کیچووں کو طویل عرصے تک کسی دباؤ یا خطرے کی تناؤ بھری کیفیت میں رکھا جائے تو اس کا اثر اگلی دونسلوں تک جاپہنچتا ہے جس کی تصدیق ہوچکی ہے۔