پچھلے کئی دنوں سے سوشل میڈیا پر اسبات کی تشہیر کی جارہی ہے کہ بجلی پر چلنے والے حمام انتہائی آرام دہ ہیں ۔ کئی ایجنسیاں یہ حمام گھروں کے اندر لگانے میں مصروف ہیں ۔ اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ حمام ایندھن پر چلنے والے حماموں سے بہت کم قیمت پر لگائے جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ بڑی آسانی سے چلائے جاسکتے ہیں ۔ حمام لگانے والے کاریگروں کا کہنا ہے کہ کشمیر میں لوگ بڑے پیمانے پر یہ حمام پسند کرتے ہیں اور زور دے رہے کہ ان کے گھروں میں جلد از جلد لگائے جائیں ۔ اس طرح سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ بہت جلد بیشتر گھروں کے اندر بجلی پر چلنے والے یہ حمام دیکھے جائیں گے ۔ اس وجہ سے ظاہر سی بات ہے کہ بجلی کی کھپت پر مزید دبائو بڑھ جائے گا ۔ایسے حمام گھر کے ایک یا دو کمروں میں نہیں بلکہ تمام کمروں میں لگائے جاسکتے ہیں ۔ روایتی حمام مکان کی نچلی منزل کے کسی ایک کمرے میں لگائے جاتے ہیں ۔ لیکن بجلی کے حمام گھر کی کسی بھی منزل اور کسی بھی کمرے میں لگائے جاسکتے ہیں ۔ اندازہ لگایا جارہا ہے کہ بہت جلد کشمیر میں ہر گھر کے ہر کمرے میں ایسے حمام لگے ہونگے ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ انتظامیہ اور محکمہ بجلی کے اہلکار تماشائی بنے ہوئے ہیں اور اس حوالے سے کوئی قانونی کاروائی نہیں کرتے ہیں ۔ جب تمام گھروں کے اندر بجلی پر چلنے والے یہ حمام لگ جائیں گے پھر شور مچایا جائے گا کہ حماموں کی وجہ سے بجلی کی کھپت میں اضافہ ہوا ہے ۔ محکمہ اتنی زیادہ مقدار میں بجلی فراہم نہیں کرسکتا ہے ۔ یہ حمام چونکہ اثر و رسوخ اور اعلیٰ طبقے کے لوگ استعمال کرتے ہیں ۔ ان کے خلاف کاروائی کرنا آسان نہیں ۔ البتہ اس کا خمیازہ عام صارفین کو اٹھانا پڑے گا ۔ عام صارف پر آج کل جس قدر دبائو ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔ اس کے باوجود محکمہ بجلی کے ذمہ دار بجلی کے مسائل کم کرنے کے بجائے ان میں اضافہ کرنے کا باعث بن رہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ بجلی کی نج کاری کو پسند کرنے لگے ہیں ۔ وہ دن دور نہیں جب لوگ مطالبہ کریں گے کہ بجلی کو پرائیویٹ ہاتھوں میں دیا جائے ۔ پچھلے مہینے محکمے نے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرکے اسی حساب سے فیس وصول کی ۔ اس دوران بجلی کی سپلائی میں کمی کرکے صارفین کو سخت تکلیف کا شکار بنایا گیا ۔ آگے جاکر عام صارفین کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا ۔
کشمیر میں پہلے ہی بجلی کی سخت کمی پائی جاتی ہے ۔ بجلی کی پیداوار میں اضافہ ہونے کے باوجود یہاں کے عوام کو چوبیس گھنٹے کی بجلی فراہم نہیں کی جاتی ہے ۔ ملک کا ایک بڑاعلاقہ کشمیر میں پیدا ہونے والے بجلی سپلائی سے ہی اپنی ضروریات پورا کرتا ہے ۔ یہاں پن بجلی پیدا کرکے اس کو ملک کی کئی ریاستوں کو بھیجا جاتا ہے اور قیمت بھی کم ہی وصول کی جاتی ہے ۔ اس کے بجائے یہاإ کے عوام چوبیس گھنٹے کی بجلی سپلائی سے محروم ہیں ۔سردیاں شروع ہونے سے پہلے گورنر انتظامیہ نے یقین دلایا تھا کہ اس سال بجلی میں کٹوتی نہیں کی جائے گی اور رات دن مسلسل بجلی فراہم کی جائے گی ۔ لیکن یہ وعدہ وفا نہ ہوسکا ۔ ابھی سردیاں شروع ہونے والی تھیں کہ آٹھ گھنٹوں کی بجلی کٹوتی کا شیڈول سامنے آگیا ۔ سخت مایوسی کی بات یہ ہے کہ اس شیڈول پر کہیں بھی عمل نہیں کیا جاتا ہے ۔ بلکہ شیڈول کے نام پر صارفین کے ساتھ مزاق کیا جارہا ہے ۔ بجلی کی آنکھ مچولی جاری ہے اور لوگوں کو اس حوالے سے سخت مصائب کا سامنا ہے ۔ اس حوالے سے بات کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے ۔ محکمے کی طرف سے اس صورتحال کو جائز قرار دیا جاتا ہے ۔ محکمہ بجلی کے حکام بڑی بے شرمی سے اپنی نااہلی کا دفاع کرتے ہیں اور صارفین کو مجرم ٹھہرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ۔ تاہم یہ بات ہماری سمجھ سے باہر ہے کہ ایسے میں لوگوں کو بجلی پر چلنے والے آلات استعمال کرنے کی اجازت کیوں دیتی ہے ۔ بجلی کے اس غلط استعمال میں محکمے کے اہلکار مددگار بن رہے ہیں۔ ناجائز بجلی کنکشن فراہم کرنے میں ان کا بڑے پیمانے پر تعاون مل رہاہے ۔ پتہ چلا ہے کہ بجلی پر چلنے والے حمام لگانے سے پہلے متعلقہ لائن مین کو اعتماد میں لیا جاتا ہے ۔ یہ اعتماد حاصل کرنے کے بعد کہ اس مد میں کوئی مزید بوجھ نہیں ڈالا جائے گا لوگ بڑی تیزی سے گھروں میں بجلی کے یہ حمام لگارہے ہیں ۔ یقینی طور محکمے کے اعلیٰ حکام ایسی کوئی شکایت ماننے سے انکار کریں گے ۔ بجلی محکمے کے اندر لائن مین سے لے کر اعلیٰ حکام تک جو تال میل پایا جاتا ہے اور بڑے پیمانے پر خرد برد کیا جاتا ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ یہ محکمہ آج تک لوگوں کے لئے سہولت کے بجائے وبال جان بنا ہوا ہے ۔ لوگوں کو چوبیس گھنٹے یہ گنتی کرنا پڑتی ہے کہ کب بجلی آئی اور کب چلی گئی ۔ اس آنے اور جانے کی وجہ سے سخت ذہنی کوفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ لوگوں کے اندر پریشانیاں بڑنے کا ایک سبب بجلی محکمے کا رات دن کیا جانے والا مزاق بھی ہے ۔ اب حماموں میں اضافے کے نتیجے میں مزید مشکلات کا سامنا ہوگا ۔ اس کا سارا خمیازہ عام اور غریب صارفین کو اٹھانا پڑے گا ۔ اس تکلیف کی ذمہ داری لینے کو محکمہ تیار نہیں ہوگا ۔ لیکن اس کے جو نتائج ہونگے اس کا واحد ذمہ دار محکمہ بجلی کو ہی ٹھہرایا جاسکتا ہے ۔
