چوبیس گھنٹوں کے دوران اچانک حرکت قلب بند ہونے سے دس لوگوں کی موت واقع ہوگئی ۔ سب سے المناک واقع بارھمولہ میں پیش آیا جہاں ایسے ہی ایک کیس میں فوت ہونے والے نوجوان کی نعش جب گھر پہنچائی گئی تو وہاں اس کی ماں اسی وجہ سے دنیا سے چل بسی ۔ اس سے نہ صرف شمالی کشمیر میں بلکہ دور دور تک تشویش پیدا ہوگئی ۔ کہا جاتا ہے کہ ایک مہینے کے دوران دو سو سے زیادہ ایسے واقعات پیش آئے ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ طبی ماہرین خاص کر یہاں کے سرکاری ہسپتالوں میں کام کررہے ڈاکٹر ان واقعات کے لئے کئی طرح کے بہانے تراش کر اسے معمول کا واقع بتاتے ہیں ۔ ادھر لوگ اس طرح کے حادثات سے تشویشناک صورتحال سے دوچار ہیں ۔ ایسے حادثات میں کمی آنے کے بجائے روز بہ روز اضافہ ہوتا جارہاہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام کو سدباب کے طریقوں سے جانکاری دی جائے ۔ تاکہ لوگ احتیاطی تدابیر کریں ۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا ہے ۔ جس وجہ سے نہ صرف حرکت قلب بند ہونے کے واقعات مسلسل پیش آرہے ہیں بلکہ اس وجہ سے اموات میں بھی اضافہ ہورہا ہے ۔ لوگ بے بس ہوکر اپنی موت کا انتظار کررہے ہیں ۔
جموں کشمیر میں پہلے ہی ذہنی تنائو اپنی تمام حدیں پار کرچکا ہے ۔ پچھلی تین دہائیوں کی صورتحال نے لوگوں کو ذہنی طور سخت منتشر کیا ہوا ہے ۔ مینٹل ہسپتال اور اس مرض کے ماہرین کے پاس مریضوں کا رش دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں اس بیماری نے کس حد تک لوگوں کو متاثر کیا ہے ۔ بلکہ ہر گھر اور ہر شخص اس مرض کا شکار بتایا جاتا ہے ۔ اب کئی مہینوں سے دل کے امراض نے ہیبت ناک صورتحال اختیار کررکھی ہے ۔ اس وجہ سے آئے دن اموات ہورہی ہیں اور لوگ سخت مایوسی سے دوچار ہیں ۔ طبی ماہرین کا ایک طبقہ اس کے لئے موسمی حالات ذمہ دار قرار دے رہاہے ۔ کہا جاتا ہے کہ دمہ کے مریضوں کے لئے ایسے موسمی حالات جان لیوا ثابت ہورہے ہیں ۔ آکسیجن کی سطح میں کمی آنے کو حرکت قلب بند ہونے کی وجہ بتایا جاتا ہے ۔ اسی طرح دوسرے کئی عوامل اس کے لئے ذمہ دار بتائے جاتے ہیں ۔ یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی ہے کہ موسم سرما میں کشمیر میں شرح اموات میں بے تحاشہ اضافہ ہوتا ہے ۔ اس کے ساتھ اب دل کے دورے پڑنے کے غیر معمولی حادثات بھی پیش آتے ہیں ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے بغل میں واقع لداخ خطے میں سرما کا موسم کشمیر سے زیادہ سخت ہوتا ہے ۔ وہاں بہت زیادہ سردی پڑتی ہے اور ہوا میں آکسیجن کی سطح کشمیر سے ویسے بھی کم ہوتی ہے ۔ لیکن وہاں ایسے واقعات پیش نہیں آتے ہیں ۔ وہاں کے لوگوں کو ایسی طبی سہولیات بھی میسر نہیں ہیں ۔ احتیاطی تدابیر بھی نظر نہیں آتے ہیں ۔ ممکن ہے کہ وہاں کی شرح اموات کشمیر سے زیادہ ہو ۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ ہارٹ اٹیک کے ایسے واقعات وہاں پیش نہیں آتے ہیں ۔ اسی طرح شملہ میں ایسا ہورہاہے کبھی سنا نہیں گیا ۔ یورپ کے ان علاقوں کی بات ہی نہیں جہاں کا موسم سرما شدید تر ہوتا ہے ۔ بلکہ کشمیر سے زیادہ پسماندہ علاقوں میں ایسی صورتحال دیکھنے کو نہیں ملتی ہے ۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ کشمیر میں اس حوالے سے انتظامیہ اور طبی حلقے ایک ہی پیج پر نظر آتے ہیں ۔ دونوں اس کے لئے مختلف اسباب کی نشاندہی کرتے ہیں اور جواب میں کوئی بات سننے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔ یہ عجیب مخمصہ ہے کہ اس طرح کے واقعات کے اسباب تلاش کرنے کے بجائے خود ساختہ وجوہات کو حتمی مانا جاتا ہے ۔ کوئی بھی شخص جو نام نہاد ڈاکٹری کی سند رکھتا ہو اس کی تھیوری قابل اعتماد مانی جاتی ہے ۔ وہ شخص جو معمولی سردر د کا علاج کرنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو ہارٹ اٹیک پر بیان دے کر یہاں کے انتظامی اور طبی حلقوں میں باور کراتا ہے کہ اس کا سدباب ممکن نہیں ۔ ایسے موسم کے اندر اس طرح کی اموات وک قدرتی عمل مانا جاتا ہے ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ انتظامیہ اور اس سے منسلک حلقے بھی اس پر یقین کرتے ہیں ۔ کوئی سروے کرنے کے بجائے گھر بیٹھے اس کے اسباب کی نشاندہی کی جاتی ہے ۔ یہاں یہ بات پیش کرنا غلط نہ ہوگا کہ پچھلے بیس تیس سالوں کے دوران یونیورسٹی کے کئی شعبوں نے ذہنی تنائو کے اسباب تلاش کرنے کے لئے انفرادی اور اجتماعی تحقیقات کرائی ۔ کئی ڈاکٹروں نے اپنے طور اس کے لئے سروے کی ۔ ایسی کوششوں کے بعد ہی ممکن ہوا کہ لوگوں کو ان امراض کاعلاج کرانے کی طرف راغب کیا جاسکا ۔ بیرون ملک سے ماہرین یہاں کے ذہنی تنائو کے مریضوں کا علاج اور امداد کرنے کو پہنچ گئے ۔ لیکن ہارٹ اٹیک اور اس طرح کے امراض کے حوالے سے ایسی کوئی بھی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی ۔ بلکہ ڈاکٹر حسب روایت خود کو اس جھنجٹ میں آنے سے بچارہے ہیں ۔ وہ اس بات کے پیچھے لگے ہیں کہ کوئی موسم کی ستم گری کے بجائے اس کا کوئی اور سبب تلاش کرنے کی کوشش نہ کرے ۔ لوگ مررہے ہیں اور ڈاکٹر نیرو کی طرح بانسری بجارہے ہیں ۔ انہیں اپنی آمدنی سے غرض ہے ۔ باقی سب اللہ کے حوالے ۔ ایسے میں لوگوں کی مدد کو کوئی آئے ممکن نہیں ۔
