جموں کشمیر بینک کی طرف سے انکشاف کیا گیا کہ اس کا خالص منافع 79 فیصد تک بڑھ گیا ہے ۔ اس طرح سے روان مالی سال کی دسمبر سہ ماہی تک کل منافع 311 کروڑ سے زیادہ بتایا گیا ہے ۔ پچھلے مالی سال کے اسی سہ ماہی کے مقابلے میں منافع کی رقم مبینہ طور دوگنی بتائی جاتی ہے ۔ ان باتوں کا انکشاف پچھلے دنوں بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے سامنے کیا گیا ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بینک مسلسل ترقی کی طرف بڑھ رہاہے ۔ بینک نے مبینہ طور اپنے آغاز کے پہلے دن سے ہی ترقی کی رفتار بحال رکھی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عوام بینک پر پورا بھروسہ کررہے ہیں اور اپنی رقم بینکمیں محفوظ سمجھتے ہیں ۔ یہ بڑی حوصل افزا بات ہے کہ اقتصادی مشکلات کے اندر بھی جموں کشمیر بینک آگے بڑھنے میں کامیاب رہا ۔
جموں کشمیر بینک کے حوالے سے یہ بات مدنظر رکھنا ہوگی کہ یہاں کا سارا کاروبار اسی بینک کے ذریعے ہوتا ہے ۔ جموں کشمیر میں تمام تجارتی سرگرمیاں اور دوسرے مالی لین دین اسی بینک کے ذریعے انجام پاتے ہیں ۔ جو دوسرے بینک یہاں کام کررہے ہیں وہ محدود سرگرمیاں ہی کرپاتے ہیں ۔ اس وجہ سے جے کے بینک اپنے سیکٹر میں ایک منفرد بینک ہے ۔ اس کا کسی دوسرے بینک کے ساتھ کوئی مقابلہ آرائی نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ سرکاری سیکٹر کی طرف سے سرمایہ کاری اسی بینک کے ذریعے ہوتی ہے ۔ ملازموں کی تنخواہوں کے علاوہ دوسرے بہت سے فنڈس کا لین دین جموں کشمیر بینک کی وساطت سے انجام پاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بینک کو کسی بھی سیکٹر میں پیسہ لگانے کے لئے سرمایے کی کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی ہے ۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو بینک کی ترقی اور اس کا منافع کمانا کچھ زیادہ عجیب نہیں ہے ۔ یہ صحیح ہے کہ بینک کے لئے بنائے جانے والے منصوبے بڑے کامیاب رہتے ہیں ۔ اس کامیابی میں اس کے بورڈ آٖ ڈائریکٹرز اور دوسرے ملازمین کا بڑا رول ہے ۔ منافع کمانے کا کریڈت اس کے ملازموں کو ضرور جاتا ہے ۔ اس کے باوجود یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی ہے کہ بینک لوگوں کو ترقی دینے کے حوالے سے کوئی بڑا کارنامہ انجام نہیں دے سکا ۔ اس دوران ایسے کئی حوصلہ شکن وااقعات سامنے آئے ۔ یہ جان کر بڑا دکھ ہوا کہ کچھ سال پہلے بینک نے کئی ایسے افراد اور فرموں کو قرضے دئے ہیں جو پہلے ہی دیوالیہ ہوچکے ہیں ۔ کچھ سیاست دانوں کی سفارش اور کئی اثر ورسوخ رکھنے والوں کی مداخلت سے ایسے فرضے فراہم کئے گئے ہیں جن کے واپس آنے کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی ۔ اس معاملے میں بینک قوانین کا کوئی پاس و لحاظ نہیں کیا گیا ہے ۔ بلکہ تمام اصول وضوابط کو بالائے طاق رکھ کر لوگوں کو قرضے دئے گئے ہیں ۔ بلکہ کئی لوگوں کو مبینہ طور بہت کم سود پر قرضے فراہم کئے گئے ہیں ۔ اس کے برعکس ان گاہکوں کو بلا وجہ الجھا جاتا ہے جو یہاں کے پشتنیباشندے ہیں ۔ غریب اور کم آمدنی والے گاہکوں کو تمام ضوابط پورا کرنے کے لئے کہا جاتا ہے ۔ ایسا کرکے بھی انہیں آسانی سے فرضے نہیں دئے جاتے ہیں ۔ بینک کی کسٹمر سروس کے حوالے سے لوگ بڑی مایوسی کا اظہار کرتے ہیں ۔ بینک کے اعلیٰ حکام ایسی شکایات ماننے کے لئے تیار نہیں ہونگے ۔ لیکن یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ پچھلی ایک دہائی کے دوران بینک میں جو ملازم چور دروازوں سے بھرتی کئے گئے ان میں بڑی تعداد نااہل افراد کی ہے ۔ یہ ملازم کوئی کام بہتر ڈھنگ سے انجام دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں ۔ ان کی دیکھا دیکھی میں دوسرے ملازمین بھی کام میں تساہل دکھانے لگے ہیں ۔ اب اس بات پر سخت حیرانی کا اظہار کیا جاتا ہے کہ پہلے بینک میں جاکر جس طرح سے سروس ملتی تھی آج اس کا عشرعشیر بھی دیکھنے کو نہیں ملتا ہے ۔ بینک ایسے معاملات میں کھوکھلا ہوچکا ہے ۔ بینک کی طرف سے ڈجیٹل سروس فراہم کی جاتی ہے ۔ لیکن وہ اس معیار کی نہیں ہے جس طرح سے دوسرے بینکوں میں پائی جاتی ہے ۔ اس حوالے سے لوگ سخت بیزاری کا اظہار کررہے ہیں ۔ ایک طرف حکومت عوام کو یقین دلارہی ہے کہ بہت سی اسکیمیں بینک کے ذریعے فراہم کی جاتی ہیں ۔ دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ بینک میں کام کرنے والے اکثر ملازم ایسی آن لائن اسکیموں سے پوری طرح سے بے خبر ہیں ۔ انہیں ان اسکیموں کے حوالے سے کوئی جانکاری دی جاتی ہے نہ یہ ملازم خود ان اسکیموں کے بارے میں بنیادی باتیں معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ ان اسکیموں سے فائدہ اٹھانے سے محروم رہتے ہیں ۔ لوگ بینک اہلکاروں سے جس سروس کا مطالبہ کرتے ہیں ایسی کوئی سروس انہیں مفت نہیں ملتی ۔ بلکہ بینک کو اس کا معاوضہ ملتا ہے ۔ اس کے باوجود یہ اہلکار سیدھے منہ سے بات کرنے کو تیار نہیں ہوتے ۔ بینکوں میں رقم بھرنے یا رقم حاصل کرنے کے لئے ہروقت لمبی لمبی لائینیں بنی ہوتی ہیں ۔ بینک نے کبھی کوئی کوشش نہیں کی کہ یہ رش ختم ہوپائے اور لوگوں کو سہولت فراہم کی جائے ۔ منافع کمانا اچھی بات ہے لیکن سروس بہتر نہ بنانا مایوس کن ہے ۔
