سرینگر کے قرفلی محلہ میں اس وقت دو غیر مقامی شہری مارے گئے جب ان پر نامعلوم بندوق برداروں نے نزدیک سے گولیاں چلائی ۔ ان میں سے ایک شہری موقعے پر دم توڑ بیٹھا جبکہ دوسرے زخمی شہری کو ہسپتال لے جائے گا ۔ زخمی شہری اگلے روز ہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاکر جان کی بازی ہار گیا ۔ مارے گئے شہریوں کی شناخت امرتسر پنجاب کے امرت پال سنگھ اور روہت ماشی کے طور ہوئی ہے ۔ ان دو شہریوں پر بدھ کی شام کو گولیاں چلائی گئی جس سے دونوں زخمی ہوگئے ۔ امرت موقعے پر ہی ہلاک ہوگیا جبکہ روہت شدید زخمی ہوگیا ۔ روہت کو علاج معالجے کے لئے ہسپتال لے جایا گیا ۔ سرکاری حلقوں نے تصدیق کی ہے کہ جمعرات کو اس کی صورہ ہسپتال میں موت واقع ہوگئی ۔ اس طرح سے حملے میں مارے گئے افراد کی تعداد دو ہوگئی ۔ سرینگر میں یہ رواں سال کے دوران اس نوعیت کا پہلا واقعہ ہے ۔ اس سے پہلے یہاں وقفے وقفے سے پولیس اہلکاروں اور عام شہریوں کو مارے جانے کے کئی واقعات پیش آئے ۔ پولیس کا کہنا ہے کہ شہر میں سیکورٹی کے انتظامات مزید سخت کئے گئے ہیں اور قاتل کی تلاش جاری ہے ۔ آس پاس کے علاقوں میں تلاشی مہم تیز کردی گئی ہے ۔ حساس علاقوں میں تعینات فورسز کو ہائی الرٹ کیا گیا ہے ۔ تاہم تاحال کوئی سراغ نہیں ملا ہے ۔ لیفٹنٹ گورنر نے ان ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور امید ظاہر کی کہ قاتلوں کو بہت جلد تلاش کرکے ان کے انجام تک پہنچایا جائے گا ۔ ایل جی نے اپنے بیان میںہلاکتوں کو انسانیت سوز قرار دیتے ہوئے اس پر دکھ کا اظہار کیا ۔ این سی کے ڈاکٹر فاروق اور عمر عبداللہ کے علاوہ محبوبہ مفتی ، الطاف بخاری اور دوسرے تمام سیاسی رہنمائوں نے ان ہلاکتوں کی مزمت کرتے ہوئے ان پر صدمے کا اظہار کیا ۔
سرینگر اور اس کے آس پاس پہلے ہی سیکورٹی کے غیر معمولی انتظامات ہیں ۔ جگہ جگہ سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے ہیں جن کی مدد سے راہ گیروں کی حرکات و سکنات پر نظر رکھی جاتی ہے ۔ اس سے پہلے یہاں ملی ٹنسی کے جو بھی واقعات پیش آئے ان کیمروں کی مدد سے ان کی کھوج بڑی آسانی سے لگائی گئی ۔ حملہ آوروں کی شناخت کے سلسلے میں یہ کیمرے بہت ہی مددگار ثابت ہوئے ہیں ۔ اس طور اندازہ لگایا جاتا ہے کہ قرہ فلی محلے میں پیش آئی واردات میں ملوث افراد کو بہت جلد ڈھونڈ نکالا جائے گا ۔ اس کے باوجود یہ بات بڑی عجیب ہے کہ ایسے واقعات پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا مشکل ہورہاہے ۔ وادی کے کئی علاقوں میں ملی ٹنسی کی وارداتوں کو مکمل طور ختم کیا گیا ہے ۔ یہاں ملی ٹنٹ صفوں میں نئے لڑکوں کی سرے سے کوئی بھرتی نہیں ہورہی ہے ۔ پہلے جو علاقے ملی ٹنسی کا گڑھ سمجھے جاتے تھے آہستہ آہستہ ملی ٹنسی کو قابو کرکے ایسے کئی علاقوں کو اب پر امن قرار دیا جارہاہے ۔ سرینگر میں بھی ایک مرحلے پر ملی ٹنسی کا ختم کئے جانے کا دعویٰ کیا جاتا تھا ۔ بلکہ یہ علاقہ پوری طرح سے ملی ٹنسی سے صاف کیا گیا تھا ۔ لیکن اچانک ٹارگٹ کلنگس کا سلسلہ شروع ہوگیا جو وقفے وقفے سے جاری ہے ۔ کسی مسلح شخص کے لئے عام شہریوں پر گولیاں چلانا کوئی مشکل کام نہیں ۔ البتہ واردات کے بعد بھاگ جانا اور کہیں پر پھپ جانا سیکورٹی فورسز کے لئے بڑا چیلنج قرار دیا جارہاہے ۔ انتظامیہ نے اس سے پہلے مبینہ طور ہائیڈ آوٹ فراہم کرنے کے الزام کئی شہریوں کو ملک کے مختلف جیلوں میں بند کرنے کے علاوہ ان کی جائیداد بھی ضبط کی ۔ کئی رہائشی مکانوں کو سیل کرکے پولیس نے اپنی تحویل میں لے لیا ۔ اس قدر دبائو کے باوجود مسلح افراد کے لئے چھپنے کی جگہ تلاش کرنا غیر معمولی بات ہے ۔ کشمیر میں ہزاروں کی تعداد میں غیر مقامی شہری کام کاج کی تلاش میں آتے ہیں ۔ یہاں کئی مہینے گزار کر سردی کا موسم شروع ہوتے ہی یہ لوگ اپنے آبائی گھروں کو چلے جاتے ہیں ۔ تاہم کئی کاریگر خاص طور سے ترکھان اور نائی سال بھر یہاں ٹھہرتے ہیں ۔ ایسا کام زیادہ تر سردیوں میں ہی کیا جاتا ہے ۔ اس وجہ سے قرہ فلی محلے میں مارے گئے کاریگر ابھی تک یہیں ٹھہرے ہوئے تھے ۔ بدقسمتی سے ان کو ٹارگٹ بناکر ہلاک کیا گیا ۔ اگرچہ اس واقعے کو زیادہ تشہیر نہیں دی گئی ۔ تاہم اس طرح کا واقعہ سرینگر میں پیش آنا باعث تشویش سمجھا جاتا ہے ۔ سرینگر جہاں دوسرے علاقوں کے مقابلے میں سیکورٹی کے زیادہ سخت انتظامات ہیں بندوق برداروں کی نقل و حمل تشویش کا باعث سمجھی جاتی ہے ۔ وزارت داخلہ نے جو تازہ اعداد و شمار پیش کئے ہیں ان کے مطابق تشدد کے واقعات میں بہت حد تک کمی آگئی ہے ۔ بلکہ اس طرح کے واقعات اب نہ ہونے کے برابر بتائے جاتے ہیں ۔ سرحدوں پر حالات کو کنٹرول میں کرکے در اندازی کو ناممکن بنایا گیا ہے ۔ اسی طرح پچھلے سال کے دوران مبینہ طور پتھر بازی کا ایک بھی واقعہ پیش نہیں آیا ۔ اس صورتحال کوسیکورٹی حلقے حوصلہ افزا بتاتے ہیں ۔وادی کے طول وعرض میں حالات کو بہت حد تک پر امن بتایا جاتاہے ۔ سرینگر میں بھی مجموعی حالات قابو میں ہیں ۔ تاہم تارگٹ کلنگ کے واقعات کبھی کبھار پیش آتے رہتے ہیں ۔ ایسی واردات انجام دینا دوسری ملی ٹنسی کاروائیوں کی نسبت آسان ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس طرح کے واقعات اب تک پیش آتے رہتے ہیں ۔
