وزیراعظم نریندر مودی کا وہ خط عوامی اور سیاسی حلقوں کی توجہ کا مرکز بنا ہے جو انہوں نے پچھلے دنوں عوام کے نام لکھا ۔ اس خط کے آغاز میں انہوں نے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے انہیں اپنے فیملی ممبران کے طور خطاب کیا ہے ۔ یہ خط روایتی انداز میں نہیں لکھا گیا بلکہ اس میں وزیراعظم کے جذبات عیاں طور سامنے آرہے ہیں ۔ انہوں نے عوام کے ساتھ اپنے گہرے دلی جذبات کا احساس دلاتے ہوئے عوام کو اپنے دس سالہ تعلق کو اجاگر کیا ہے ۔ اس حوالے سے انہوں نے خط میں ان کی حکومت کی طرف سے شروع کئے گئے پروگراموں کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ تمام پروگرام عوام کی خوشحالی اور ملک کی ترقی کے پروگرام ہیں ۔وزیراعظم نے خط میں دعویٰ کیا ہے کہ ان پروگراموں سے ملک کے عوام بہت آگے بڑھ چکے ہیں ۔ وزیراعظم نے عوام کو خوشخبری سنائی کہ ملک روایتی اور جدید انداز میں تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح سے دونوں میدانوں میں ترقی ایک غیر معمولی بات ہے ۔ خط میں کہا گیا ہے کہ ایسی ترقی کسی ایک شخص یا گروہ کے ذریعے ممکن نہیں ہوسکی ۔ بلکہ یہ اس اعتماد کا نتیجہ ہے جس کا عوام نے وزیراعظم اور ان کی حکومت کے تئیں کیا ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ جمہوریت کی خوبصورتی ہے جو لوگوں کی مجموعی شراکت سے پھلتی اور پھولتی ہے ۔ عوام کے سپورٹ سے ہی ممکن ہوا ک حکومت کچھ ٹھوس اور مشکل فیصلے لینے میں کامیاب ہوئی ۔ اس خط کے اندر عوام کو بتایا گیا کہ حکومت کے ساتھ انہوں نے جو خواہشات وابستہ کی تھیں ان خواہشات کا احترام کرتے ہوئے حکومت نے وہ اقدام کئے جن کا عوام سے وعدہ کیا گیا تھا ۔ خط کا آخر میں مید ظاہر کی گئی ہے کہ عوام اس طرح کی حمایت جاری رکھیں گے اور موجودہ سرکار کی حمایت کرکے اسے ملک کو مزید آگے بڑھانے میں مدد دیں گے ۔
وزراعظم نریندر مودی سے پہلے کئی وزراء اعظم نے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے خط لکھے یا اپنی سرکار کے پروگرام کے اظہار میں اخبارات میں مضمون لکھے ۔ وزیراعظم واجپائی اپنی قلم کاری کے حوالے سے بڑے ہنرمند تھے ۔ بلکہ تقریر اور تحریر دونوں میدانوں میں ایک اعلیٰ مقام رکھتے تھے ۔ عوام کو اپنے ساتھ چلانے میں بڑے ماہر تھے ۔ اسی طرح جگجیون رام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ عوام کے جذبات کو سمجھنے اور ان جذبات کو اپنی منشا کے مطابق رخ دینے کے ماہر تھے ۔ یہ سب اپنی جگہ ۔ لیکن مودی نے جس طرح سے ملک کے عوام کو اپنے پیچھے چلنے کی ترغیب دی وہ کسی اور سے ممکن نہ ہوسکی ۔ مودی سے پہلے جتنے بھی لیڈر آئے ان میں کئی اپنے دور کے مقبول لیڈر تھے ۔ لیکن ان کی یہ مقبولیت زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی اور عوام بہت جلد ان سے اکتا گئے ۔ اس کے بجائے مودی کی قیادت گہری معلوم ہوتی ہے ۔ پچھلے دس سال انہوں نے عوام کو جس طرح سے سحر زدہ کیا وہ کسی اور سے ممکن نہ ہوسکا ۔ ان کی سرکار کے دس سال یاد گار سال رہیں ۔ اب نئی لوک سبھا کے انتخابات کا شیڈول سامنے آچکا ہے ۔ اگلے دو مہینے اس حوالے سے سخت کش مکش کے رہیں گے ۔ اس دوران مودی کا مذکورہ خط منظر عام پر آیا ۔ انہوں نے عوام سے کہا ہے کہ و بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کے لئے نئی لوک سبھا میں 400 سیٹیں حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ ایسا کس طرح سے ممکن ہوگا اس کے لئے انہوں نے اپنے عوام سے تجاویز مانگی ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک کی آزادی کے سو سال مکمل ہونے کے موقعے پر یعنی 2047 تک وہ بھارت کو دنیا کا سپر پاور بنانا چاہتے ہیں ۔ اسے انہوں نے وکسٹ بھارت کا نام دیا ہے ۔ اس حوالے سے روڈ میپ پیش کرتے ہوئے انہوں نے یقین دلایا ہے کہ وکسٹ بھارت سے ان کی مراد حکومتی سطح پر ترقی نہیں ۔ بلکہ وہ ملک کے تمام شہریوں کو مادی اور صنعتی لحاظ سے ترقی یافتہ بنانا چاہتے ہیں ۔ عوام کے نام خط میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ پچھلے دس سالوں کے دوران ترقی کے لحاظ سے کئی منزلیں طے کی گئیں ۔ جو ابھی باقی رہ گیا ہے وہ اگلے دور حکومت کا اصل پروگرام ہے ۔ اس دوران حکومت دعویٰ کررہی ہے کہ مودی کی گارنٹی محض زبان تک محدود نہیں ۔ بلکہ جو کچھ کہا گیا وہ کرکے دکھا یا گیا ۔ وکسٹ بھارت کو مودی کی گارنٹی کہا جاتا ہے اور عوام سے کہا جاتا ہے کہ مودی کی یہ گارنٹی ضرور پوری کی جائے گی ۔ مودی کے اس خط نے ان کے مخالفین کو سخت پریشان کیا ہے ۔ مودی نے اس خط میں ملک کے 1.4 بلین لوگوں کی حاصل حمایت پر انہیں حوصلہ افزائی کی اور برملا اظہار کیا کہ انہیں اب تک اتنے لوگوں کی بھر پور حمایت حاصل ہے ۔ ایک اہم سیاسی موڑ پر اس طرح کا اظہار کوئی معمولی بات نہیں بلکہ ایک بہت بڑا سیاسی چیلنج ہے ۔ کئی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اپنے عوام کے نام خط میں وزیراعظم نے جو کچھ کہا ہے ان کے مخالفین کے لئے ان باتوں کو مسترد کرنا ممکن نہیں ہے ۔ ایسے سارے پروگرام پچھلی دس سالہ حکمرانی کے دوران بڑے نمایاں پروگرام رہے ۔ اس بنیاد پر مودی کی قیادت میں بی جے پی کا آئندہ انتخابات میں اپنی کامیابی کا مظاہرہ کرنا مشکل نہیں ہے ۔
