اتنا کافی نہیں کہ صحت سہولیات کو بہتر بنایا جائے بلکہ اس میں یکسانیت لانے کی ضرورت ہے ۔ ان باتوں کا اظہار لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا نے ایک اہم میٹنگ میں کیا ہے ۔ انہوں نے حکام پر زور دیا کہ سب کے لئے صحت سہولیات کو یقینی بنائیں اور ایسی سہولیات مساوی طور فراہم ہوں ۔ ایل جی نے واضح کیا کہ سب کے لئے صحت سرکار کی ترجیح ہے اور صحت خدمات کو موثر طریقے سے سب شہریوں تک پہنچانا ان کا ہدف ہے ۔ جموں میں محکمہ صحت اور طبی تعلیم کے اعلیٰ آفیسروں کی ایک اہم میٹنگ میں سنہا نے وہاں موجود تمام ذمہ داروں پر زور دیا کہ مختلف صحت اسکیموں کی عمل آوری کو یقینی بناتے ہوئے صحت سہولیات کو گھر گھر پہنچانے کی کوشش کی جائے ۔ جموں میں یہ جائزہ میٹنگ مختلف اسکیموں کے لئے فنڈس کی واگزاری اور سابق کارکردگی کا جائزہ لینے کے لئے بلائی گئی تھی ۔ میٹنگ میں محکمہ صحت کے سینئر حکام کے علاوہ میڈیکل کالجوں کے پرنسپلوں نے بھی شرکت کی جہاں صحت کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے علاوہ صحت سہولیات کو عام شہریوں کے لئے ممکن بنانے پر زور دیا گیا ۔ ان آفیسروں سے کہا گیا کہ ہسپتالوں کے کام کاج سے متعلق گہرائی سے تجزیہ کرنے کی کوشش کریں اور وہاں موجود تاکہ صحت سہولیات کو مزید ترقی دی جاسکے ۔ انہوں نے آفیسروں سے کہا کہ موجودہ سہولیات کو کافی نہ سمجھا جائے بلکہ ایسی سہولیات میں مزید جدت لانے کی ضرورت ہے ۔ صحت کارڈوں کا مریضوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانے کے علاوہ ایل جی نے آن لائن اپوئنٹ منٹ سسٹم بہتر بنانے پر زور دیا ۔میٹنگ میں منشیات کے عادی افراد کو اس مرض سے نجات دلانے کے لئے کوششوں کو نتیجہ خیز بنانے پر زور دیا گیا ۔
جموں کشمیر میں صحت سہولیات کے حوالے مریض ابھی تک مطمئن نہیں ۔ سرکار پچھلے کئی سالوں سے سرکاری ہسپتالوں اور دوسرے صحت مراکز کو جدید سہولیات بہم پہنچانے میں لگی ہوئی ہے ۔ پہلے مرحلے پر بنیادی ڈھانچہ بہتر بنانے کے لئے مبینہ طور وافر مقدارمیں فنڈس فراہم کئے گئے ۔ خاص طور سے کووڈ 19 کے دوران تمام توجہ صحت سہولیات کو بہتر بنانے پر مرکوز رکھی گئی ۔ بعد میں ہسپتالوں میں موجود سہولیات کو جدید لائنوں پر ڈالنے کی کوشش کی گئی ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ مرکزی سرکار کی طرف سے صحت کارڈ کے تحت پانچ لاکھ روپے تک مفت صحت سہولیات فراہم کرنے سے پسماندہ طبقوں سے تعلق رکھنے والے مریضوں کو بہت بڑی سہولت فراہم کی گئی ۔ صحت کارڈ یقینی طور ایسے لوگوں کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں ۔ جان لیوا امراض میں ملوث افراد کے لئے صحت کارڈ کی سہولت نئی زندگی فراہم کرنے کا باعث بن رہا ہے ۔ اس کے باوجود یہ بدقسمتی آج تک سرکاری ہسپتالوں سے جڑی ہے کہ وہاں موجود ڈاکٹر صاحبان اور دوسرے عملے کے طریقہ کار سے مریض کسی طور مطمئن نہیں ہیں ۔ کوئی اثر و رسوخ نہ رکھنے والے مریضوں کے لئے ان ہسپتالوں میں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا ہے ۔ دیہی علاقوں میں موجود ہسپتال مریضوں کے لئے محض ریفرل کلنک بن گئے ہیں ۔ یہاں آنے والے قریب قریب ہر مریض کو بڑے ہسپتالوں کو ریفر کیا جاتا ہے ۔ بلکہ کئی بار یہ بھی دیکھا گیا کہ ایسے مریضوں کو نجی ہسپتالوں میں بھرتی ہونے کا مشورہ دیا جاتا ہے ۔ عجیب بات یہ ہے کہ دو بڑے ہسپتالوں میں سفارش کے بغیر سرے سے علاج ممکن نہیں ہے ۔ شاید اسی بات سے باخبر ہوتے ہوئے ایل جی نے صحت حکام پر زور دیا کہ صحت سہولیات ہر شہری کے لئے یکساں طور فراہم کی جائیں اور اس میں کسی قسم کی تفاوت نہ کی جائے ۔ ایسا مشورہ دے کر یقینی طور ایل جی نے غریب اور بے بس عوام کے دلوں کی بات صحت حکام تک پہنچائی ۔ اس مشورے پر واقعی سرکاری ہسپتالوں میں عمل ہوگا اس بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے ۔ ایسے ہسپتالوں میں بیٹھے افراد انتہائی بے خوف اور عوام دشمن ثابت ہوئے ہیں ۔ ان کا مریضوں کے ساتھ رحم کا کوئی تعلق نہیں پایا جاتا ۔ بلکہ غریب مریضوں کے ساتھ انتہائی ناشائستہ رویہ اختیار کرنے کے عادی بن گئے ہیں ۔ ایسے مریضوں کی زندگی سے کھیلنا ان کے لئے کسی عار کا باعث نہیں ہے ۔ اس حوالے سے لوگ کے جو تجربات اور مشاہدے رہے ہیں وہ انتہائی خوفناک کہانیاں ہیں ۔ ان سے ڈر کھاکر لوگ اپنے عزیز مریضوں کو جموں کشمیر سے باہر کے ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کے پاس لے جانے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ آج بھی کئی سو مریض چندی گڑھ ، امرتسر ، دہلی یہاں تک کہ فرید آباد کے ہسپتالوں میں علاج کرانے کے لئے گئے ہیں ۔ ایسے مریض وہاں کے ڈاکٹروں کی شفقت اور دوسرے عملے کے کام کے جذبے کی تعریف کھلے دل سے کرتے ہیں ۔ وہاں سے آئے مریض دوسرے لوگوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ جموں کشمیر کے ہسپتالوں کے اندر ایک روپے خرچ کرنے سے بہتر ہے کہ باہر جاکر لاکھوں روپے صرف کئے جائیں ۔ اس کی واحد وجہ وہاں کے ڈاکٹروں کی پیشہ ورانی صلاحیت نہیں بلکہ ان کا شفقت آمیز رویہ ہے ۔ ایل جی نے صحت حکام کی میٹنگ میں جو مشورے دئے ہیں ان پر عمل کرکے نہ صرف صحت سہولیات بلکہ انسانی اقدار کو بہتر بنایا جاسکتا ہے ۔
