بارھمولہ کی پارلیمانی نشست کے لئے پیر کو ووٹ ڈالے گئے ۔ چیف الیکٹورل آفیسر کے مطابق ووٹ ڈالنے کی شرح 59 فیصد رہی جو بہت ہی حوصلہ افزا بتائی جاتی ہے ۔ اطلاعات کے مطابق ووٹ ڈالنے کی شرح 1984 کے بعد سب سے زیادہ ہے ۔ اس حوالے سے پیش کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ پولنگ شرح ہندوارہ میں دیکھی گئی جہاں 67 فیصد سے زیادہ ووٹ ڈالے گئے جبکہ گریز میں 40 فیصد ووٹروں نے اپنی رائے دہی کا استعمال کیا جو پورے حلقے میں سب سے کم ووٹنگ شرح بتائی جاتی ہے ۔ مجموعی طور 59 فیصد ووٹنگ درج کی گئی جس پر سیاسی اور عوامی حلقوں میں اطمینان کا اظہار کیا جاتا ہے ۔ اتنی زیادہ تعداد میں ووٹ ڈالنے پر پہلے لیفٹنٹ گورنر اور وزیرداخلہ نے لوگوں کی سراہانہ کی ۔ بعد میں وزیراعظم نریندر مودی نے اس حوالے سے سوشل میڈیا پر ٹویٹ کرتے ہوئے ووٹروں کو مبارک باد دی ۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں امن و امان بحال کرنے کے بعد لوگ کسی خوف و خطر کے بغیر ووٹ ڈالنے کے لئے آرہے ہیں ۔ سب سے بڑی جمہوریت والے ملک میں لوگوں کا ووٹ ڈالنے کے لئے پولنگ بوتھوں پر آنا واقعی ایک حوصلہ افزا بات ہے ۔ اگرچہ بارھمولہ میں پچھلے دس پندرہ سالوں سے لوگ ووٹ ڈالنے کے عمل میں حصہ لے رہے ہیں ۔ اس سے پہلے بھی شمالی کشمیر کے کئی علاقوں میں علاحدگی پسندوں کی طرف سے الیکشن بائیکاٹ کی کال کو نظر انداز کرتے ہوئے لوگوں نے ووٹ ڈالے ۔ کپوارہ کے بالائی علاقوں میں حریت کالوں کو بڑے پیمانے پر نظر انداز کیا گیا اور ملی ٹنٹوں کی طرف سے پھیلائے گئے خوف کو نظر انداز کیا گیا ۔ جس زمانے میں پوری وادی میں ووٹنگ شرح دو ہندسوں تک نہیں پہنچتی تھی اس زمانے میں بھی کپوارہ اور ہندوارہ کے عوام نے الیکشن میں حصہ لیتے ہوئے ووٹ ڈالے ۔ مرحوم غنی لون کو ملی ٹنٹوں کی طرف سے گولی کا شکار بنانے کے بعد یہاں کے عوام نے ہڑتال اور الیکشن بائیکاٹ کی کال پر کان دھرنے کے بجائے ووٹ ڈالنا پسند کیا ۔ اس پر حریت کی کئی اکائیوں نے شور مچایا ۔ بلکہ حریت کانفرنس کے دو پھاڑ ہونے کا آغاز یہیں سے ہوا ۔ لوگوں نے ایسی باتوں کی طرف توجہ دینے کے بجائے میں اسٹریم میں آنا پسند کیا اور ووٹ ڈال کر جمہوری عمل کی بھر پور حمایت کی ۔ اس کے اثرات نہ صرف عالمی سطح پر دیکھے گئے بلکہ کشمیر کے بہت سے علاقوں میں لوگوں نے اس سے متاثر ہوکر الیکشن بائیکاٹ کی کالوں کو بے کار کی چیز سمجھتے ہوئے الیکشن میں حصہ لینا پسند کیا ۔ کرناہ اور ہندوارہ سے شروع ہوئے ووٹنگ کے رجحان نے بہت سے علاقوں کے لوگوں کو متاثر کیا یہاں تک کہ بائیکاٹ کی کال بے اثر ہوگئی ۔ آج شمالی کشمیر کے لوگوں نے ایک بار پھر سیاسی عمل کی بھر پور حمایت کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر اپنے ووٹ کا استعمال کیا ۔ ہندوارہ میں سجاد لون اور لنگیٹ میں انجینئر رشید کے ذاتی اثر و رسوخ نے اپنا کمال دکھاتے ہوئے ووٹنگ شرح میں اضافہ کیا ۔ بارھمولہ سے پہلے سرینگر انتخابی حلقے میں لوگوں نے ووٹ ڈالے ۔ سرینگر میں ووٹنگ کی مجموعی شرح 38 فیصد رہی ۔ کم ووٹنگ شرح پر بعض حلقوں نے مایوسی کا اظہار کیا ۔ تاہم شہر خاص اور ترال وغیرہ میں لوگوں نے پہلی بار بغیر خوف ووٹ ڈال کر اپنی رائے کا اظہار کیا ۔ اس وجہ سے ووٹنگ شرح کو اطمینان بخش قرار دیا گیا ۔ بارھمولہ حلقے سے تعلق رکھنے والے ووٹروں نے جس جوش و خروش کا اظہار کیا اس سے الیکشن میں حصہ لینے والوں کو کافی خوشی ہوئی ۔ سرکاری حلقوں نے پر امن ووٹنگ پر خوشی کا اظہار کیا ۔
بارھمولہ میں ووٹنگ کے حوالے سے کہا گیا کہ صبح سات بجے کے آس پاس ہی لوگ پولنگ بوتھوں پر پہنچ گئے ۔ دن ڈھلنے کے ساتھ ہی ان بوتھوں پر ووٹروں کا رش بڑھ گیا اور لوگ لمبی قطاروں میں نظر آنے لگے ۔ یہ سلسلہ شام چھے بجے تک جاری رہا ۔ کئی معمر افراد نے ووٹ ڈال کر خوشی کا اظہار کیا ۔ خاص طور سے خواتین کی بڑی تعداد نے اس عمل میں حصہ لیا ۔ یہاں الیکشن مہم کے اندر لوگوں نے بڑے پیمانے پر حصہ لیا اور مبینہ طور نوے کی دہائی کے بعد پہلی بار لوگوں میں الیکشن کے حوالے سے اس طرح کا جوش وخروش دیکھا گیا ۔ بارھمولہ کی اس نشست پر تین اہم امیدوار قسمت آزمائی کے لئے میدان میں اترے ہیں ۔ شروع میں عمر عبداللہ کے علاوہ سجاد لون نے ووٹروں کو اپنے حق میں کرنے کی بڑے پیمانے پر کوشش کی ۔ اچانک انجینئر رشید کے بیٹوں نے میدان میں آکر نوجوانوں میں نیا جوش و جذبہ پیدا کیا ۔ ان نوجوانوں نے سخت کش مکش کا ماحول پیدا کیا جس کی وجہ سے این سی اور پی سی کے کارکنوں پر خاطر خواہ اثر پڑا اور دونوں دیرینہ اور تجربہ کار جماعتوں نے اپنی حمایت کرنے والوں کو الیکشن مہم تیز کرنے کا مشورہ دیا ۔ اس وجہ سے الیکشن مہم میں سخت جوش و جذبہ دیکھنے کو ملا ۔ بارھمولہ میں ہوئی ووٹنگ کے بعد جموں کشمیر میں چار سیٹوں پر ووٹ ڈالنے کا عمل مکمل ہوا ۔ اب اننت ناگ راجوری نشست کے لئے اگلے ہفتے ووٹ ڈالے جارہے ہیں ۔
