
سائیں میراں بخش گنتریاں، پونچھ وادی کے پہاڑوں کے درمیان واقع ایک مشہور سوفی کا مزار ہے۔ یہ جموں اور کشمیر کے سرحدی ضلع پونچھ میں ایک بہت ہی مشہور سیاحتی اور مقدس مقام نھی ہے۔ میں ضلع پونچھ کے ایک بلاک بانڈیچیان کی بات کر رہی ہوں۔یہ علاقہ اس مزار اور ضلع کے باقی حصوں کے درمیان رابطے کا کام کرتا ہے۔ ہر روز یہ مقدس جگہ بہت سے عقیدت مندوں کا خیرمقدم کرتی ہے جو سائیں بابا صاحب کو خراج عقیدت پیش کرنے آتے ہیں اور ان سے اپنی خواہشات کے قبول ہونے کی دعا ئیں کرتے ہیں ۔ خاص طور پر جمعرات اور اتوار کو تقریباً 2000 سے 4000 لوگ مقدس مقام کی زیارت کرتے ہیں۔ مزار کی آمدن تقریباً 16 لاکھ روپے ماہانہ ہے۔ یہ ضلع کی ترقی میں اس مقدس مقام کی اقتصادی شراکت کو ظاہر کرتا ہے۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لیے اس قدر مقدس مقام ہونے اور معاشی ترقی کا عنصر ہونے کے باوجود، اس علاقے میں رہنے والے لوگوں کو بہت سے مسائل کا سامنا درپیش ہے۔ مزار کو پونچھ شہر سے جوڑنے والی رابطہ سڑک جو کہ تقریباً 10 کلومیٹر پر مشتمل ہے، خراب حالت میں ہے۔ مزار سے جڑنے والی دو سڑکیں ہیں، ایک نونہ بانڈی روڈ اور دوسری قصبہ سے گزرنے والی سڑک۔ نونہ بانڈی کی سڑک کو حال ہی میں اپ گریڈ کیا گیا ہے۔اپ گریڈ ہونے کے باوجود سڑک کی چوڑائی زیادہ نہیں بدلی ہے جس کی وجہ سے دو گاڑیوں کا ایک دوسرے سے گزرنا کافی مشکل ہے۔ اس وجہ سے حادثات کے خطرے میں اضافہ ہوتا ہے، جو ماضی میں ہو چکے ہیں جس کے نتیجے میں کئی سالوں میں کئی اموات ہوئیں۔
مزار پر روزانہ کی بنیاد پر زائرین کی تعداد کے لحاظ سے یہ واقعی ضروری ہو گیا ہے کہ سڑک کی بہتری کی جانچ کی جائے تاکہ مستقبل میں کسی بھی حادثے سے بچا جا سکے۔ کئی برسوں کے دوران کئی بسوں کو حادثات کا سامنا کرنا پڑا جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں اموات ہوئیں۔ اس لیے اس معاملے پر غور کرنا بہت ضروری ہو گیا ہے کہ بارڈر روڈ آرگنائزیشن (BRO) اس علاقہ جات میں رہنے والے لوگوں اور مزار پر آنے والے عقیدت مندوں کے لیے اس سڑک کو زیادہ محفوظ بنانے کی کوشش کرے۔ یہ سڑک ابھی تک ترقی یافتہ نہیں ہے۔ پونچھ کو سائی بابا سے بذریعہ قصبہ ملانے والی سڑک نونہ بانڈی سے 6 کلومیٹر چھوٹی ہے، اس لیے یہ وقت بچانے والی بھی بن جاتی ہے۔اس سلسلے میں ایک مقامی بزرگ خاتون سڑک کی تاریخ بتاتی ہیں کہ بہت عرصہ پہلے مزار کا راستہ قصبہ سے ہی ہوکر گزرتاتھا کیونکہ یہ دوسرے راستے کے مقابلے چھوٹا تھا۔ ایسے میں اس روٹ (قصبہ روڈ) کی اپ گریڈیشن سے مقامی لوگوں کو کئی طرح سے فائدہ ہونگے۔ اس سڑک کی بہتری سے علاقے کی ترقی خود بخود پروان چڑھے گی۔ ہائیر سیکنڈری اسکول کی ایک طالبہ سحر کاظمی (نام تبدیل) کہتی ہیں کہ ”سڑک کے بہتر نہیں ہونے کی وجہ سے ہمیں آمدورفت میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کرایہ ہماری استطاعت سے کافی زیادہ ہوتا ہے۔ نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے اور گھر کی مالی حالت بہتر نہیں ہونے کی وجہ سے ہمارے لیے یہ کرایہ بھی بہت زیادہ ہے۔اس کی وجہ سے ہمارے لیے باقاعدگی سے اسکول جانا کافی مشکل ہو جاتا ہے۔اس کے علاوہ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ بس سڑک کے کنارے سے گزر رہی ہے اور کسی بھی لمحے نیچے گر جائے گی۔جس کی وجہ سے بیٹھنے سے ڈر لگتا ہے۔ اس علاقے میں نہ صرف سڑک کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے بلکہ ٹرانسپورٹیشن کو بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔اتنا ہی نہیں، نی صرف بہت سی بسوں کو اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے بلکہ کرایے کی شرح پربھی غور فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ شکایت نہ صرف سحر کی ہے بلکہ اور بھی بہت سے طلبہ کو اسی طرح کی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔پڑھنے میں ہوشیار ہونے کے باوجودیہ لڑکیاں صرف اس لئے تعلیم سے دور ہو رہی ہیں کیونکہ اسکول جانے اور آنے کا کیرایابہت زیادہ لگتا ہے اور گھر کی مالی حالت اس خرچ کو برداشت نہیں کر سکتی ہے۔ اگر انتظامیہ اس معاملے کی جانچ کرے اور طلبہ کے لیے مناسب کرایہ مقرر کرے تو اسکولوں میں ان کی حاضری بھی بہتر ہو سکتی ہے اور ان کا مستقبل بھی روشن ہو سکتا ہے۔
بنڈی چیچیاں کے اس بلاک میں جو اسکول موجود ہیں وہ بھی اتنے ترقی یافتہ نہیں ہیں جتنا کہ ہونے چاہیے تھے۔ میں خود یہاں کے ہائیر سیکنڈری اسکول کی طالب علم تھی، جب میں اپنے سینئر سیکنڈری میں تھی تو ہمارے پاس دو سال سے فزکس اور کیمسٹری کے اساتذہ نہیں تھے۔ اس کی وجہ سے طلباء کو بہت پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ میرے پاس آؤٹ ہونے کے ایک سال بعد یہاں فزکس اور کیمسٹری کے فیکلٹی کا تقرر ہوا۔ ایک بہت ذہین طالب علم صارم (نام تبدیل) نے کہا”میں نے آٹھویں جماعت تک پرائیویٹ اسکول میں تعلیم حاصل کی۔لیکن گھر کی مالی حالت بہتر نہیں ہونے کی وجہ سے گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری اسکول بنڈی چیچیاں میں داخلہ کرایا۔ لیکن اس اسکول کا تعلیمی معیار اوسط سے بھی کم ہے۔ جس کی وجہ سے میرا تعلیمی میار گرتا جا رہا ہے اور مجھے اپنی پڑھائی سے سمجھوتہ کرنا پڑرہا ہے۔“ یہ اس علاقے میں اسکول کی تعلیمی حالت کی چند مثال ہے۔یہی وجہ ہے کہ کمزور مالی حالت ہونے کے باوجود بہت سے والدین اپنے بچوں کو سرکاری اسکول کی بجائے پرائیویٹ اسکولوں میں داخلہ دینے کو ترجیح دینے لگے ہیں تاکہ ان کے بچے اچھے اورمعیاری تعلیم حاصل کر اعلی عہدے والی نوکریاں حاصل کر سکیں۔ اگر یہاں کے سرکاری سکولوں کا تعلیمی معیار بہتر ہوتا تو نہ صرف غریب گھر کے بچے بھی اچھی تعلیم حاصل کرتے بلکہ اس سے علاقے کی ترقی بھی ہوتی۔
صرف تعلیم کے میدان میں ہی نہیں، یہ علاقہ صحت کی سہولتا کے معاملے میں بھی انتہائی ناقص ہے۔ ایل او سی کے قریب ہونے کے باوجود صحت کی دیکھ بھال کے نظام کے معاملے میں اس علاقہ کو اتنی اہمیت نہیں دی گئی جتنی دی جانی چاہیے تھی۔ سرحد کے قریب ہونے کی وجہ سے کسی بھی وقت یہاں کوئی بھی جانی نقصان ہو نے کا خطرہ بنا رہتا ہے اور قریب ترین ہسپتال 10 کلومیٹر دور ہے۔ بہت سے گھرتو سڑکوں سے کافی دورپیدل فاصلے پر ہیں۔ اس لیے اس سے ہسپتال کے فاصلے میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ صورتحال کو زیادہ نازک اور ہلاکتوں کو مزید بڑھا دیتاہے۔افسوس کہ یہ علاقہ ایک عظیم مقدس مقام مسکن ابدال حضرت سائیں بابا میراں بخش ماندھاڑ گونتریاں سے منسلک ہونے کے باوجود پسماندگی کی وجہ سے بہت زیادہ مشکلات کا شکار ہے۔ جن لوگوں کو سیاحتی مقام کے قریب ہونے کے فوائد سے لطف اندوز ہونا چاہئے، انہیں ایسا کوئی فائدہ نہیں ملتا۔ سڑکوں کی حالت، نقل و حمل کا نظام، نظام تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال ایک ترقی یافتہ معاشرے کے یہ تمام اہم پہلو اس علاقے میں پسماندہ ہیں۔ حکومت اور مقامی انتظامہ کو اس جانب سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ یہ مقدس علاقہ اب مزید ترقی کا منتظر نہ رہے۔ (چرخہ فیچرس)